ایرانی جوڑے کے لیے ڈانس ویڈیو کے باعث دس سال سے زائد کی قید
1 فروری 2023ایرانی حکام نے تہران کے ایک یادگاری مقام کے سامنے ڈانس کرنے کے الزام میں ایک نوجوان جوڑے کو دس سال سے زائد کی سزائے قید سنا دی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق آستیاژ حقیقی اور ان کے منگیتر امیر محمد احمدی کو یہ سزا ان کی ایک ڈانس ویڈیو سامنے آنے کے باعث سنائی گئی۔ اس جوڑے کو گزشتہ برس نومبر میں ایرانی دارالحکومت میں آزادی ٹاور کے سامنے بنائی گئی اپنی ایک رومانوی ڈانس کی ویڈیو سوشل میڈیا شیئر کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سخت ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور کئی مہینوں سے جاری حجاب مخالف مظاہروں کے تناظر میں حقیقی نے یہ ڈانس اپنے سر پر اسکارف کے بغیر کیا تھا۔ ایران میں خواتین کو عوامی سطح پر رقص اور گیت گانے سے بھی منع کیا جاتا ہے اور خاص طور پر کسی مرد کے ساتھ مل کر ایسا کرنے کی سخت ممانعت ہے۔
اس واقعے کے وقت یہ جوڑا ایران میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پہلے ہی بہت مقبول تھا اور ان کی اس ویڈیو کو حجاب اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ملک میں جاری احتجاجی تحریک کی علامت کے طور پر بھی پیش کیا گیا تھا۔
ویڈیو شیئرنگ کے نتائج
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے ایک گروپ ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹس نیوز ایجنسی (HRANA) کے مطابق اس جوڑے کو 10 سال اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہیں انٹرنیٹ استعمال کرنے اور ملک چھوڑنے پر پابندی کا سامنا بھی ہے۔
اس جوڑے کے خاندانوں کے جاننے والے افراد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان دونوں کو قانونی نمائندگی کا حق دیے بغیر ہی ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔ ان کی ضمانت پر رہائی کی کوششوں کو بھی ایک عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔
حقیقی اب قرچک جیل میں ہیں، جو تہران سے باہر خواتین کی ایک بدنام زمانہ جیل ہے۔ انسانی حقوق کےکارکنوں کی طرف سے قرچک جیل میں عمومی حالات کی باقاعدہ مذمت کی جاتی ہے۔
گرفتاریوں کا وسیع تر پس منظر
ایران میں نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی گزشتہ برس ستمبر میں ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا عوامی احتجاج مہینوں تک جاری رہا تھا اور اس دوران حکام نے ملک بھر میں سخت کریک ڈاؤن کیا تھا۔ امینی کو خواتین کے لیے طے شدہ اسلامی لباس کے سخت ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی موت کے بعد یہ احتجاج تہران حکومت کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک میں بدل گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام نے اس دوران کریک ڈاؤن میں کم از کم 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا۔ حراست میں لیے گئے شہریوں میں کئی مشہور شخصیات، صحافی اور وکلاء بھی شامل ہیں۔
تہران کے مشہور آزادی ٹاور کو 1970ء کی دہائی کے اوائل میں ملک کےآخری بادشاہ محمد رضا پہلوی کے دور میں کھولا گیا تھا۔ پہلوی 1979ء میں اسلامی انقلاب سے کچھ ہی پہلے اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
ش ر ⁄ م م ( اے ایف پی، ڈی پی اے)