ایرانی حکومت کے خلاف ایران میں ہی جنگ لڑ رہے ہیں، جیش العدل
18 فروری 2014ایرانی حکومت کی جانب سے سنی شدت پسند تنظیم جیش العدل کے خلاف پاکستانی حدود میں کارروائی کی حالیہ دھمکی نے پاکستان اور ایران کے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے ایک بار پھر خدشات کو جنم دیا ہے۔
شدت پسند عسکری تنظیم جیش العدل نے منگل کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر جاری کیے گئے اپنے تازہ بیان میں بھی یہ تردید کی ہے کہ وہ پاکستان سے ایران میں دراندازی کر رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جیش العدل ایرانی حکومت کے خلاف ایران میں جنگ لڑ رہی ہے اور اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جیش العدل کے مطابق وہ ایران میں ایرانی بلوچوں کےحقوق کے لیے جنگ لڑ رہی ہے اورایرانی حکو متی اہلکار ائندہ بھی اس کا ہدف رہیں گے۔
ایران میں جنداللہ کے بعد منظر عام پر آنے والی سنی شدت پسند تنظیم جیش العدل کی سرگرمیوں کا مرکز ایرانی میڈیا کے مطابق، بلوچ اکثریتی علاقے سیستان بلوچستان، نک شہر، چابہار ایران شہر، سرباز، زاہدان، سراواب اور خآش رہے ہیں۔ ایرانی بلوچوں کے حقوق کی دعویدار یہ تنظیم ایران کے اندر دیگر ایسی کئی پرتشدد کاروائیوں اور خود کش حملوں میں ملوث رہی ہے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایران ماضی میں بھی پاکستانی حدود سے دراندازی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے، جس کی پاکستان کی طرف سے تردید کی جاتی رہی ہے۔ تاہم ایرانی وزیر داخلہ کے حالیہ بیان کو مبصرین نے غیر سنجیدگی سے تعبیر کیا ہے۔ پاکستان کے دفاعی امور کے ایک سینیئر تجزیہ کار پرو فیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول پاکستان اور ایران کے دیرینہ تعلقات خطے میں پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس لیے دونوں ممالک کو دراندازی کے بجائے سنجیدگی سے اپنے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا: ’’ایران، پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان اپنی سرحد کو محفوظ بنائے لیکن یہ تو دونوں ممالک کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور انہیں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے۔ بارڈر بہت بڑا ہے، اس لیے اس کا کنٹرول بہت مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں غیر قانونی آمدورفت ہوتی رہتی ہے میرے خیال میں یہ مسائل مل بیٹھ کر ہی حل ہو سکتے ہیں۔‘‘
سینیئر صحافی اور ایرانی امورکے تجزیہ کار فرمان رحمان کے مطابق پاکستان اور ایران کو خطے میں پائیدار امن کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرنا ہو گی، کیونکہ دونوں ممالک میں جاری بلوچ مسلح بغاوت سے یہ مسائل جنم لے رہے ہیں: ’’دیکھیے ایران اور پاکستان کا شمار اس خطے کے دو اہم ترین ممالک میں کیا جاتا ہے اور ان دونوں ممالک میں پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان میں کچھ گروپ بغاوت کر رہے ہیں اور وہاں تواتر کے ساتھ حملے ہوتے رہے ہیں جو ان دونوں ممالک کے اندرونی معاملات ہیں اور انہیں اپنے طور پر ہی انہیں حل کرنا ہوگا۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں بھی اسی عسکریت پسند گروپ کے ارکان نے پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی علاقے میں ایک حملے کے دوران 14 ایرانی سرحدی محافظوں کو ہلاک اور چھ دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔
عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ