1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی خاتون رہنما کے جرمن خاتون وزیر سے مصافحے پر ہنگامہ

علی کیفی
8 اکتوبر 2016

جرمنی کے دورے پر آئی ایرانی نائب صدر معصومہ ابتکار نے جرمنی کی ماحولیات کی خاتون وزیر باربرا ہینڈرکس سے مصافحہ کیا کر لیا، ایران میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا ہے۔ وجہ یہ غلط فہمی بنی کہ ابتکار نے کسی مرد سے مصافحہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2R2JO
Screenshot von http://www.afkarnews.ir/
فارسی زبان کی ایک ویب سائٹ سے لیا گیا اسکرین شاٹ، جس میں معصومہ ابتکار کو جرمن خاتون وزیر کے ساتھ ہاتھ ملاتے دیکھا جا سکتا ہےتصویر: www.afkarnews.ir

معصومہ ابتکار کا یہ ایک معصومانہ سا مصافحہ تھا لیکن ایرانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اِس بناء پر غم و غصّے کا ایک طوفان برپا ہو گیا کہ نائب ایرانی صدر نے جرمنی کے کسی مرد سیاستدان کے ساتھ ہاتھ ملائے ہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ چیز بنی کہ جرمنی کی ماحولیات کے شعبے کی خاتون وزیر باربرا ہینڈرکس نے اپنے بال عام خواتین کی طرح لمبے نہیں چھوڑ رکھے بلکہ ترشوا کر چھوٹے چھوٹے کروا رکھے ہیں۔

یہ سارا ہنگامہ اُس وقت شروع ہوا، جب ایران کے سرکاری ٹیلی وژن چینل IRBI نے جرمن دارالحکومت برلن میں معصومہ ابتکار اور باربرا ہینڈرکس کے دریان ہونے والی ملاقات کے بارے میں ایک رپورٹ نشر کی۔ اس رپورٹ میں دونوں کو ہاتھ ملاتے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق آئی آر بی آئی کی رپورٹ اور اُس میں دکھائی جانے والی تصاویر سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ ابتکار نے غالباً کسی مرد کے ساتھ ہاتھ ملائے ہیں۔

ایران میں مذہبی روایات کی سختی سے پاسداری کرنے والی مسلمان خواتین کے لیے کسی اجنبی مرد کے ساتھ ہاتھ ملانا ایک شجرِ ممنوعہ گردانا جاتا ہے۔ اگر واقعی معصومہ ابتکار، جو ملک کی نائب صدر ہونے کے ساتھ ساتھ امورِ ماحولیات کی وزارت کی بھی سربراہ ہیں، کسی اجنبی مرد کے ساتھ ہاتھ ملا لیتیں، تو وہ اپنے عہدے سے محروم بھی ہو سکتی تھیں۔

Iran Masoume Ebtekar
معصومہ ابتکار ملک کی نائب صدر ہونے کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے امور کی وزارت کی بھی سربراہ ہیںتصویر: MEHR

نیوز ایجنسی تسنیم نے جمعے کے روز اپنی رپورٹنگ میں اس امر کی وضاحت کر دی کہ ماحولیات کے امور کی جرمن وزیر باربرا ہینڈرکس درحقیقت ایک خاتون ہیں اور یہ کہ ویڈیو میں وہ بہرحال ’ایک مرد کی طرح نظر آتی ہیں‘۔

اِدھر IRBI کے برلن اسٹوڈیو نے بھی وضاحت جاری کی ہے کہ ٹی وی پر نشر کردہ رپورٹ میں ہرگز یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ابتکار نے کسی مرد کے ساتھ ہاتھ ملائے ہیں، اس لیے یہ چینل اس رپورٹ کے نتیجے میں جنم لینے والے غلط تاثرات کا ذمہ دار نہیں ہے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس سال کے اوائل میں ایران کے سخت گیر موقف کے حامل دھڑے کو پارلیمانی انتخابات میں شکست اٹھانا پڑی تھی اور اس دھڑے کو اب یہ خدشہ ہے کہ اعتدال پسند صدر حسن روحانی، جن کی معصومہ ابتکار حلیف ہیں، مئی میں مجوزہ انتخابات میں پھر سے جیت جائیں گے۔ ایسے میں یہ دھڑا ہر ایسے موقعے کی تلاش میں رہتا ہے، جس کے ذریعے صدر یا اُن کی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہو۔