ایرانی صدارتی الیکشن کا نتیجہ حیران کن ہو سکتا ہے
23 اپریل 2017عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج بسا اوقات حیران کن ہوتے ہیں کیونکہ بظاہر کمزور دکھائی دینے والے امیدوار الیکشن جیت جاتے ہیں۔ اگلے مہینے ہونے والے صدارتی الیکشن میں حسن روحانی کو کم از کم ایسے دو امیدواروں کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے، جو سخت گیر عقیدے کے حامل ہیں۔ بعض مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ کئی ایرانیوں کے نزدیک روحانی کے دوسری مدت کے لیے صدر بننے کے امکانات کم ہیں۔
صدرحسن روحانی کو سخت مقابلہ دینے والوں میں سخت گیر عقیدے کے عالم اور سابق جج ابراہیم رئیسی اور ایرانی دارالحکومت تہران کے سابق میئر محمد باقر قالیباف ہیں۔ رئیسی کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا معتمدِ خاص اور قریبی مشیر قرار دیا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان دونوں امیدواروں میں سے کوئی ایک کامیابی حاصل کر کے ایرانی عوام اور بین الاقوامی برادری کو حیران کر سکتا ہے۔
ایرانی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے انگریز مؤرخ مائیکل ایکسوردی کا کہنا ہے کہ ایرانی سیاستدانوں کو عوامی رائے عامہ کے جائزوں تک رسائی ممکن نہیں اور کئی مرتبہ انہیں ووٹنگ کے نتیجے میں حیران کن شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایکسوردی نے سن 1997 میں محمد خاتمی کی کامیابی کو ایرانی مذہبی حلقوں کے لیے ایک حیران کن شکست کے مساوی قرار دیا ہے۔
اسی طرح ایران کے عوامیت پسند صدر محمود احمدی نژاد کی کامیابی تھی۔ اُن کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد ووٹنگ کے عمل میں کرپشن کا شور اور اصلاح پسندوں کی احتجاجی تحریک خاصی اہمیت کی حامل تھی۔
شوریٰ نگہبان کی جانب سے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جا چکی ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ پر مختلف الاقسام کے مفروضے چھائے ہوئے ہیں۔ کئی ایرانی دانشوروں کا خیال ہے کہ حسن روحانی کو ابراہیم رئیسی کی صورت میں ایک طاقتور امیدوار کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ محمد باقر قالیباف بھی سخت گیر امیدوار تصور کیے جاتے ہیں اور ان دونوں میں سے ایک اگر دستبردار ہو جائے تو روحانی کے لیے انتخابی مشکلات دوچند ہو سکتی ہیں۔