ایرانی فلم ساز: سینسرشپ کے باوجود کامیاب
ایران میں فلمسازوں کو اپنے ملک میں ہدایت کاری سمیت کئی طرح کی سخت ریاستی پابندیوں کا سامنا ہے۔ لیکن وہ ان پابندیوں کا مقابلہ اپنے تخلیقی فن کے ساتھ کرتے ہیں۔
محمد رسولوف
کَن فلمی میلے 2017ء میں فلم A Man of Integrity کے لیے اہم ایوارڈ جیتنے کے بعد ہیمبرگ میں مقیم محمد رسولوف واپس ایران لوٹ گئے۔ ایرانی حکام نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا اور ان کی طرف سے فلم سازی پر پابندی عائد کر دی۔ گزشتہ برس ان کو ایک سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی نئی فلم There Is No Evil کی شوٹنگ میں کامیاب ہوگئے۔ اس فلم کو برلینالے فلم فیسٹیول کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔
عبدالرضا کاهانی
اسلامی جمہوریہ ایران میں اپنی تین فلموں پر پابندی کے بعد فلم ساز عبدالرضا کاھانی سن 2015 میں فرانس منتقل ہوگئے تھے۔ کاھانی نے ’سینٹر فار ہیومن رائٹس اِن ایران‘ نامی تنظیم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم سینسرشپ میں پیدا ہوئے ہیں اور یہ ادب، موسیقی اور فلموں کو متاثر کر رہی ہے۔ سینسرشپ کا آغاز گھر کے اندر سے ہوتا ہے۔‘‘
کیانوش عیاری
کیانوش عیاری کی فلم The Paternal House سن 2012 میں تیار کی گئی تھی۔ تاہم ایران میں اس فلم کو گزشتہ برس بعض تبدیلیوں پر رضامندی کے بعد ہی ریلیز کیا گیا تھا۔ لیکن ایک ہی ہفتے بعد یہ فلم پابندی کی نذر ہو گئی تھی۔ اس پر اپنے رد عمل میں 200 سے زائد فلمی شخصیات نے اپنے ایک کھلے خط میں ایران میں ریاستی سینسرشپ کی مذمت کی تھی اور آزادی اظہار رائے کا مطالبہ کیا تھا۔
اصغر فرہادی
ایرانی فلم ساز اصغر فرہادی 2012ء اور 2016ء میں ’غیر ملکی زبان میں بہترین فلم‘ کے لیے آسکر ایوارڈز جیت چکے ہیں۔ تاہم فرہادی نے آسکر کی دوسری اعزازی تقریب میں احتجاجاﹰ شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ تب صدر ٹرمپ نے مسلمانوں پر امریکا کے سفر کی پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اصغر فرہادی سن 2019 میں ایران میں ریاستی سینسرشپ کے خلاف مہم میں بھی پیش پیش رہے تھے۔
بهمن قبادی
ایرانی کرد فلم ساز بهمن قبادی نے 2000ء میں A Time for Drunken Horses کے نام سے کرد زبان کی سب سے پہلی فلم بنائی تھی۔ 2009ء میں قبادی نے تہران کے انڈرگراؤنڈ اِنڈی میوزک پر نیم دستاویزی فلم No One Knows About Persian Cats بنائی تھی۔ یہ دونوں فلمیں کَن فلمی میلے میں ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔ تاہم ایرانی خفیہ ایجنسی کی طرف سے دھمکیوں کے باعث قبادی ایران سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔
مرجان ساتراپی
نوعمری میں ایران سے نقل مکانی کر جانے کی وجہ سے فلم ساز اور مصنفہ مرجان ساتراپی کا ایرانی حکام سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رہا۔ ساتراپی کے مزاحیہ خاکوں پر مبنی مشہور ناول Persepolis کو فلمایا بھی گیا تھا۔ یہ ایک ایرانی لڑکی کی کہانی تھی اور ایرانی معاشرے پر گہرا طنز بھی تھا۔ اس فلم نے سن 2007 کے کَن فلمی میلے میں جیوری پرائز جیتا تھا۔
محسن مخملباف
امریکا میں نائن الیون کے حملوں سے قبل ریلیز ہونے والی محسن مخملباف کی فلم ’قندھار‘ افغان خواتین کو درپیش حالات کے بارے میں ایک اہم فلم سمجھی جاتی ہے۔ ہدایتکار مخملباف کی متعدد ایوارڈ یافتہ فلموں پر ایران میں پابندی ہے۔ سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے انتخاب کے بعد وہ ملک چھوڑ کر فرانس منتقل ہوگئے تھے۔ ان کی حالیہ فیچر فلم The President (تصویر) کے ساتھ وینس فلم فیسٹیول 2014 ء کا افتتاح ہوا تھا۔
سمیرا مخملباف
محسن مخملباف کی بیٹی سمیرا مخملباف کا شمار ایران میں نئی نسل کے بااثر ہدایتکاروں میں ہوتا ہے۔ سمیرا نے سترہ برس کی عمر میں فلم The Apple کے لیے ہدایتکاری کے فرائض انجام دیے تھے۔ سن 2000 میں ان کی فلم Blackboard کے لیے انہیں کن میلے کے جیوری پرائز سے نوازا گیا تھا۔ سمیرا مخملباف کَن، وینس اور برلن جیسے بین الاقوامی فلمی میلوں کی جیوریز کی سب سے کم عمر رکن بھی رہ چکی ہیں۔
جعفر پناہی
پابندیوں کے شکار ایرانی فلم ساز جعفر پناہی کی فلم ’ٹیکسی‘ کو برلینالے 2015ء میں ’گولڈن بیئر‘ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ جعفر پناہی پر سن 2010 سے فلم سازی اور ایران سے باہر سفر کرنے پر پابندی ہے۔ تمام تر بندشوں کے باوجود وہ خفیہ طور پر فلموں کی ہدایت کاری کرتے ہیں۔
شیریں نشاط
ملالہ یوسفزئی کی شاندار تصویر بنانے والی ایرانی مصورہ شیریں نشاط خودساختہ جلاوطنی کے بعد نیو یارک میں رہائش پذیر ہے۔ شیریں ایران میں خواتین پر تشدد، سینسرشپ اور سیاسی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔ شیریں کی فیچر فلم Women Without Men کو وینس فلم فیسٹیول 2009ء میں ایک ایوارڈ بھی ملا تھا۔