ایردوآن میرکل کو ناپسند بھی اور ضرورت بھی
8 فروری 2016ترکی کے دورے کے دوران جرمن چانسلر وزیر اعظم احمد داؤد اوگلُو کے بعد آج شام ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات بھی کر رہی ہیں۔
یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے میرکل کی سفارتی کوششوں میں ترکی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان، افغانستان، شام اور عراق کے علاوہ خطے کے دیگر شورش زدہ ممالک سے یورپ کی جانب ہجرت کرنے والے مہاجرین کی اکثریت ترکی سے گزر کر ہی یورپ پہنچی ہے۔
ہفتے کے روز میرکل نے اپنے ہفتہ وار ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ یورپی یونین کے تمام رکن ممالک میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ بلاک کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔
میرکل کا یہ بھی کہنا تھا، ’’اگر یورپ انسانوں کی اسمگلنگ روکنا چاہتا ہے تو اسے مہاجرین کو قانونی طور پر قبول کرنا پڑے گا۔ یورپ اس معاملے سے خود کو بالکل الگ نہیں رکھ سکتا۔‘‘
جرمن چانسلر ترکی کا دورہ ایک ایسے وقت کر رہی ہیں جب کہ ترکی کی شام سے متصل سرحد پر 35 ہزار سے زائد شامی شہری پہنچ چکے ہیں اور یورپی یونین ترکی پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ جنگ کے مارے ان پناہ گزینوں کے لیے ترکی اپنی سرحد کھول دے۔
ترکی میں پہلے ہی پچیس لاکھ شامی شہری پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انقرہ حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ ترکی کے پاس مزید شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی گنجائش باقی نہیں رہی لیکن پھر بھی وہ ان تارکین وطن کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے ایک معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ترکی اپنی سرزمین پر موجود انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرے گا تاکہ مہاجرین سمندری راستوں سے یونان کی جانب سفر نہ کرسکیں۔
مہاجرین کو یورپ کے سفر پر روکنےسے باز رکھنے کے لیے انقرہ حکومت کے اقدامات کے بدلے یورپی یونین نے ترکی کو 3.3 بلین ڈالر امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایردوآن حکومت نے اگرچہ اس ضمن میں کچھ اقدامات بھی کیے ہیں لیکن ابھی تک ان کے کوئی حقیقی نتائج دیکھنے میں نہیں آئے ہیں۔
بحیرہ ایجیئن کے ذریعے ترک ساحلوں سے یونانی جزیروں کی جانب مہاجرین کی آمد کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج بھی ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران ایک کشتی الٹنے کے نتیجے میں کم از کم مزید 33 تارکین وطن ہلاک ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو جرمنی میں آباد ترک کمیونٹی کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ ترک نژاد جرمن شہریوں کا کہنا ہے کہ اس دورے کے دوران میرکل انقرہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص طور پر شمال مشرقی ترکی میں کرُد باغیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے معاملے کو بھی ملاقات کے دوران زیر بحث لائیں۔