ایردوآن کے قریبی رفیق اوگلو ترکی کے نئے ممکنہ وزیراعظم
27 اگست 2014ترکی پر گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالے رکھنے والے رجب طیب ایردوآن جمعرات کے روز عہدہء صدارت کا حلف اٹھائیں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے ایردوآن نے اپنے قریب ترین ساتھی داؤد اُگلو کا انتخاب اس لیے کیا، کیوں کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے ان کے ساتھ ملکی خارجہ امور کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور ایردوآن کے بااعتبار ساتھیوں میں سے سمجھے جاتے ہیں۔
55 سالہ داؤد اوگلو بدھ کے روز حکمران جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے چیئرمین کے عہدے کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں کوئی اور امیدوار نہیں، جس سے یہ بات واضح ہے کہ وہ پارٹی کے سربراہ منتخب ہو جائیں گے اور وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے بھی ان کے سامنے کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔
اے ایف پی کے مطابق رجب طیب ایردوآن اب پس پردہ رہ کر ملکی سیاست پر اثرانداز ہوتے رہیں گے، کیوں کہ ترکی میں صدر کا عہدہ صرف علامتی حیثیت کا حامل ہے۔ تاہم ایردوآن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ عہدہ صدارت کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کرتے رہیں گے۔
ترکی کے نئے متوقع وزیراعظم احمد داؤد اوگلو کو ایردوآن نے سن 2003ء میں خارجہ پالیسی کا سربراہ مقرر کیا تھا، جب کہ سن 2009 سے وہ وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔
بدھ کے روز نومنتخب صدر ایردوآن نے کہا کہ وہ داؤد اوگلو سے کہیں گے کہ وہ جمعرات تک نئی حکومت کی تشکل کا کام مکمل کریں اور اس کے اگلے روز اپنے کابینہ میں شامل وزراء کے ناموں کا اعلان کریں۔
بدھ کے روز حکمران AK پارٹی کے اجلاس سے قبل اپنے حامیوں کے ایک مجمع سے خطاب میں ان کا کہنا تھا، ’ہم داؤد اوگلو کو کل (بدھ کے روز) نئی حکومت کے قیام کا مینڈیٹ دیں گے اور جمعے کے روز وہ اپنی کابینہ کا اعلان کر دیں گے۔‘
اطلاعات کے مطابق آج انقرہ میں اے کے پارٹی کے اجلاس میں داؤد اوگلو کو جماعت کا سربراہ منتخب کر لیا جائے گا، جب کہ کل جمعرات کو ایردوآن عہدہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد انہیں بطور وزیراعظم حکومت سازی کی دعوت دیں گے۔
اے ایف پی کا کہنا ہے کہ داؤداوگلو اپنے پیش رو کے لیے متعدد چیلنجز چھوڑ کر وزارت خارجہ چھوڑ رہے ہیں۔ ایک طرف ترکی نے اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے خطے میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے، تو دوسری جانب شام اور عراق کے معاملے پر ٹھوس موقف کی وجہ سے وہ ان تنازعات سے بھی دور نہیں۔ ناقدین کے مطابق داؤداوگلو شام میں حکومت مخالف گروہوں کی مدد میں پیش پیش تھے، تاہم اس کا نتیجہ اسلامک اسٹیٹ جیسے شدت پسند گروہ کے شام اور عراق کے بڑے علاقے پر قبضے کی صورت میں نکلا اور آئندہ وزیرخارجہ کے لیے یہ چیلنج شاید سب سے گھمبیر ہو۔