ایشوریا رائے کا ’متنازعہ اشتہار‘ واپس لے لیا گیا
23 اپریل 2015اس اشتہار کے مارکیٹ میں آتے ہی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ اشتہار نہ صرف نسل پرستانہ ہے بلکہ یہ ’بچوں کی غلامی‘ کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ کلیان جیولرز کا شمار زیورات فروخت کرنے والے بھارت کے بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ بھارت بھر میں تقریباﹰ چار ہزار افراد کلیان جیولرز کے لیے کام کرتے ہیں۔ کلیان جیولرز کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ستّرہ اپریل کو بھارت کے سرکاری اخبار میں شائع ہونے والے اشتہار کا مقصد ’’بادشاہی، لازوال خوبصورتی اور حسن و جمال‘‘ کو پیش کرنا تھا۔
شائع ہونے والے اشتہار میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارتی لباس زیب تن کیے ہوئے اکتالیس سالہ ایشوریا انتہائی قیمتی زیورات پہنے ہوئے ہیں جبکہ تکیہ لگائے بیٹھی ہوئی ایشوریا کے سر پر سایہ کرنے کے لیے ایک سیاہ رنگ کا بچہ چھتری لیے کھڑا ہے۔ ایشوریا رائے نہ صرف سابق مس ورلڈ ہیں بلکہ ملک میں اقوام متحدہ کے ایڈز اور ایچ آئی وی پروگرام کے لیے خیر سگالی سفیر بھی ہیں۔
اب زیورات فروخت کرنے والے اس ادارے نے معافی مانگتے ہوئے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے، ’’ اگر ہماری نادانستگی کی وجہ سے کسی تنظیم یا فرد کے جذبات مجروح ہوئے ہوں تو ہم اس پر دل کی گہرائیوں سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی مہم سے اس اشتہار کو واپس لینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔‘‘
اس سے قبل سماجی کارکنوں نے بھارتی ویب سائٹ سکرول پر ایشوریا رائے کے نام ایک کھُلا خط جاری کیا تھا۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ اشتہار سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ان یورپی اشرافیہ خواتین کی نمائندگی کرتا ہے، جو متعدد بچوں کو غلام رکھتی تھیں اور ان کا رویہ انتہائی نسل پرستانہ تھا۔ ایشوریا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس اشتہار میں آپ بھی ماضی کی ان رانیوں کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
رائے بچن کی پروموشنل ٹیم کے ارچنا سدانند کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق حتمی اشتہار میں اداکارہ شامل نہیں تھیں۔ سوشل میڈیا پر اس اشتہار کو ایک بیمار ذہن کی اختراع قرار دیا گیا ہے۔