ایشیا کپ میں شامل فلسطینی فٹ بال ٹیم کے لیے قابل دید جذبات
18 جنوری 2024فلسطین کی مردوں کی قومی فٹ بال ٹیم کے کوچ مکرم دابوب نے اعتراف کیا کہ ایشین کپ میں ابتدائی کھیل کے دوران ان کے لیے اپنے کھلاڑیوں کے جذبات پر قابو پانا مشکل تھا۔ یہ میچ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے ایک سو دن مکمل ہونے کے موقع پر کھیلا گیا تھا۔
دابوب نے بدھ کے روز دوسرے گروپ مرحلے کے کھیل میں متحدہ عرب امارات کا سامنا کرنے سے پہلے کہا، ''پچھلے کھیل میں شروع میں توجہ وہ نہیں تھی، جو ہم چاہتے تھے۔"
"کوئی بھی کوچ وہ صورت حال نہیں چاہتا، جو ہماری ایران کے خلاف کھیلتے وقت تھی لیکن اب متحدہ عرب امارات کے خلاف کھیل مختلف ہے، کیونکہ ہمارے لیے آگے بڑھنے کے ایک جیسے امکانات ہیں اور ہمارے لیے تین پوائنٹس حاصل کرنا اہم ہے۔‘‘
فلسطینی فٹ بال ٹیم نے ایشین کپ کا آغاز غزہ جنگ کے دوران اپنی ڈومیسٹک لیگ کی معطلی کے ساتھ کیا تھا۔
فلسطینی کپتان مصعب الباطت افتتاحی تقریب کے آغاز اور اختتام پر کھلاڑیوں کے حلف لینے کی تقریب اور فلسطینی موسیقی کے لیے اسٹیج پر پہنچے جبکہ ان کے ایران کے ساتھ میچ کے دوران ''آزاد فلسطین‘‘کے نعرے سنائی دیے۔ اس کے علاوہ قطر میں متعدد قومیتوں کے پرستار فلسطین کی قمیضوں میں ملبوس یا فلسطینی پرچم اور وہاں کے روایاتی رومال یا کفایوں میں لپٹے ہوئے نظر آئے۔
فلسطین نے کبھی بھی ایشین کپ کا کوئی میچ نہیں جیتا لیکن محمد صالح جیسے کھلاڑیوں کے لیے کھیل کے دوران معمول کا فوکس رکھنا ناممکن ہے۔ فلسطینی ٹیم میں دفاعی پوزیشن پر کھیلنے والے اس کھلاڑی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی کئی دنوں سے اپنے گھر والوں سے بات نہیں ہو سکی تھی۔
صالح نے کہا کہ ان کے گھر والے، ''کھلی زمین پر ایک خیمے میں رہ رہے ہیں، خدا ان کی مدد کرے۔‘‘انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ شہر میں ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے اور ان کے خاندان کو 100 سے زائد دنوں سے جاری لڑائی کے دوران مسلسل نقل مکانی کرنی پڑی۔
ٹورنامنٹ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلےصالح کو بتایا گیا تھا کہ ان کے چچا، خالہ اور ان کے بچے اس تنازعہ میں مارے گئے ہیں۔ صالح کا کہنا تھا، ''ہم غزہ کے لیے فٹ بال کھیلتے ہیں۔‘‘
قوم کے لیے لڑائی
متحدہ عرب امارات کے ساتھ میچ کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو، تیسرے نمبر پر آنے والی متعدد ٹیموں کے ناک آؤٹ راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرنے کے ساتھ ہی فلسطین کواپنے آخری گروپ میچ میں ہانگ کانگ کے خلاف فتح کی امید ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا کھیل بہت سے لوگوں کے لیے محض اپنی توجہ بٹانے کی کوشش ہے لیکن اس سے کھیل کے حقیقی معنی ختم نہیں ہوتے۔
صالح نے کہا، ''ٹیم میں ایسے کھلاڑی بھی ہیں، جن کے اہل خانہ کیمپ میں رہتے ہوئے شہید ہوئے لیکن ہم جنگجو ہیں اور یہ جذبہ فلسطینی حب الوطنی سے لبریز ہے۔یہ ٹیم ہماری قومی شناخت کی عظیم ترین علامت ہے اور یہ ٹیم تمام فلسطینیوں کے لیے ہے۔‘‘
میٹ پئیرسن (ش ر ⁄ ر ب)