1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا کے ساحلی شہر اور سمندری طوفان

1 نومبر 2012

ماہرین نے امریکی ساحلوں پر ’سینڈی‘ کی تباہ کاریوں کے بعد خبردار کیا ہے کہ ایسے طوفانوں کا سامنا بر اعظم ایشیا کے بڑے ساحلی شہروں کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جہاں ایسے کسی خطرے سے نمٹنے کے لیے زیادہ انتظامات بھی نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/16aBs
تصویر: picture-alliance/dpa

’سینڈی‘ نامی طوفان پوری قوت سے نیویارک سے ٹکرایا ہے لیکن یہ شہر اس دھچکے کو برداشت کر جائے گا کیونکہ وہاں کی تعمیرات کے پیچھے چوٹی کی سول انجینئرنگ کارفرما ہے، حکومتی انتظام بھی اعلیٰ پائے کا ہے اور یہ دنیا کی امیر ترین معیشت کا شہر ہے۔ تاہم یہ ساری وہ باتیں ہیں، جو چین سے لے کر بحیرہء عرب تک کے ساحلوں پر بنے ہوئے اُن متعدد بڑے شہروں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتیں، جو بہتر مستقبل کی تلاش میں وہاں آ کر بس جانے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں کا مسکن ہیں۔

لندن میں قائم ادارے ’انسٹیٹیوٹ آن کلائمیٹ چینج اینڈ دی انوائرنمنٹ‘ کے ڈائریکٹر آف پالیسی بوب وارڈ کہتے ہیں:’’ان شہروں میں تیزی سے توسیع ہو رہی ہے اور انہیں صرف سمندری پانی کی سطح بلند ہونے کے مسئلے کا ہی نہیں بلکہ سمندری طوفانوں کا بھی سامنا ہے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی شہر شنگھائی بھی سمندری طوفانوں کی زَد میں آسکتا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی شہر شنگھائی بھی سمندری طوفانوں کی زَد میں آسکتا ہےتصویر: Reuters

وہ کہتے ہیں:’’یہ بات صاف ظاہر ہے کہ وہاں سرے سے کوئی شہری پلاننگ نہیں ہو رہی جبکہ وہاں بڑی تعداد میں ایسے غریب لوگ بھی ہیں، جو انتہائی پست معیار کے حامل گھروں میں رہتے ہیں اور جنہیں اس طرح کی کسی آفت کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔‘‘

اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم OECD نے اپنے 2007ء کے ایک مطالعاتی جائزے میں آبادی کے اعتبار سے ایسے بیس شہروں کی نشاندہی کی تھی، جنہیں سن 2070ء تک ساحلی سیلابوں کا سامنا ہو گا۔ ان میں سے پندرہ شہر بر اعظم ایشیا میں ہیں، جن میں سے پہلی آٹھ پوزیشنوں پر کولکتہ کے بعد ممبئی، ڈھاکہ، گوآنگ ژُو، ہو چی مِن سٹی، شنگھائی، بنکاک اور ینگون کے نام ہیں۔

دیگر ایشیائی شہر ہیں، ہائی پھونگ (دسویں نمبر پر)، تیان جِن (بارہویں نمبر پر)، بنگلہ دیش کا کھُلنا (تیرہویں نمبر پر )، چین کا نِنگ بو (چودہویں نمبر پر)، چٹاگانگ (اٹھارویں نمبر پر)، ٹوکیو (اُنیسویں نمبر پر) اور جکارتہ (بیسویں نمبر پر)۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ و قت کے ساتھ ساتھ سمندری طوفانوں کی شدت اور تعداد بڑھتی جائے گی
ماہرین کا کہنا ہے کہ و قت کے ساتھ ساتھ سمندری طوفانوں کی شدت اور تعداد بڑھتی جائے گیتصویر: Reuters

اس فہرست میں ایشیا سے ہَٹ کر دنیا کے دیگر خطّوں کے جو پانچ شہر شامل کیے گئے ہیں، وہ ہیں: میامی (9 ویں نمبر پر)، مصر کا اسکندریہ (گیارہویں نمبر پر)، لاگوس (پندرہویں نمبر پر)، آئیوری کوسٹ کا ابیجان (سولہویں نمبر پر) اور نیویارک (کہیں 17 ویں نمبر پر)۔

ساحلی شہروں کو سب سے بڑا خطرہ پانی کی سطح کے بلند ہونے سے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سن 2070ء تک زمینی درجہء حرارت میں اضافے اور گلیشئرز کے پگھلنے کے نتیجے میں عالمی سمندروں میں پانی کی سطح تقریباً پچاس سینٹی میٹر تک بلند ہو سکتی ہے۔ ایک تازہ جائزے کے مطابق پانی کی سطح میں اس قدر اضافے کے بعد ممُبئی شہر کا بیشتر حصہ رہائش کے قابل نہیں رہے گا۔

پھر بہت زیادہ بارش ساتھ لانے والے سمندری طوفان ہیں، جن کے بارے میں ماہرین کی پیشین گوئی ہے کہ اُن کی شدت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جائے گی۔ ایسے میں ماہرین تمام ساحلی شہروں میں آئندہ کے ممکنہ طوفانوں سے نمٹنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی پر زور دے رہے ہیں۔

(aa/aba(afp