ایشیائی احتجاجی تحریکوں میں خواتین کا قائدانہ کردار
بھارت، افغانستان، ایران اور پاکستان سمیت متعدد ایشائی ممالک میں حکومت مخالف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران اب خطرات اور حکومتی دباؤ کے باوجود خواتین صف اول میں کھڑی نظر آتی ہیں۔
خواتین ’امتیازی سلوک‘ کے قانون کے خلاف
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ’امتیازی سلوک کے حامل‘ نئے شہریت ترمیمی بل نے سول سوسائٹی کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور خواتین ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ حکومت کے لیے خواتین کی آواز کو دبانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
’فاشزم‘ کے خلاف جنگ
بھارت میں یونیورسٹی کی طالبات سڑکوں پر نکل چکی ہیں۔ ان کا نعرہ ہے کی سیکولر بھارت میں ’غیرآئینی‘ اقدامات کی مخالفت کی جائے گی۔ یہ مظاہرے صرف شہریت ترمیمی بل ہی نہیں بلکہ فاشسٹ معاشرتی رجحانات، بدانتظامی، مذہبی انتہاپسندی اور پولیس کی بربریت کے خلاف بھی ہیں۔
حجاب سے لاتعلقی
گزشتہ چند برسوں سے ایران کی قدامت پسند حکومت کو خواتین چیلنج کر رہی ہیں اور ایسے احتجاجی مظاہروں کے دوران حجاب اتارنے کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ’مغرب سے متاثر‘ ایسی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود خواتین کا مختلف شہروں میں مختلف طریقوں سے احتجاج جاری ہے۔
حکومت کے مدمقابل
سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایرانی خواتین کو پدرانہ دباؤ کا سامنا ہے۔ تہران حکومت نے ہمیشہ ایسے مظاہروں کو دبایا ہے، جہاں مساوی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی بات کی جاتی ہو۔ لیکن تمام تر حکومتی حربے خواتین کے حوصلے پست نہیں کر سکے۔
’اب بہت ہو چکا‘
پاکستان میں جو خواتین مساوی حقوق کی بات کرتی ہیں، زیادہ تر لوگ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ انہیں ’مغربی ایجنٹ‘ اور این جی او مافیا‘ سمجھتا ہے۔ ایسے الزامات کے باوجود حالیہ چند برسوں سے ان خواتین کی آواز معاشرے میں سنی جا رہی ہے۔
بڑی سماجی تحریک کی جانب
ابھی تک پاکستان میں موجود خواتین کے حقوق کی تنظیمیں چائلڈ میرج، مساوی حقوق، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل جیسے موضوعات پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے یہ جمہوریت نواز مظاہروں میں بھی شریک ہو رہی ہیں۔ گزشتہ برس اسٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کے لیے ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اس کی مثال ہیں۔
مغرب نے نظرانداز کیا؟
طالبان اور امریکا افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ایک ممکنہ امن ڈیل کے قریب تر ہوتے جا رہے۔ لیکن افغان خواتین پریشان ہیں کہ انہیں حالیہ چند برسوں میں ملنے والی محدود آزادی اور حقوق دوبارہ سلب ہو سکتے ہیں۔