1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایف سی کے 23 اہلکاروں کی ہلاکت بہیمانہ جُرم، صدر اور وزیراعظم

شکور رحیم، اسلام آباد17 فروری 2014

پاکستان کے صدر، وزیر اعظم اور فوج نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں ایف سی کے 23 اہلکاروں کی ہلاکت کو سنگین اور بیہمانہ جرم قرار دیتے ہوئے اس واقع کی شدید مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BAPu
تصویر: Reuters

پاکستان میں ایک طرف حکومت طالبان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی ہلاکت کا بھی۔ طالبان کی طرف سے کل اعلان کیا گیا کہ انہوں نے اپنی قید میں موجود ایف سی کے 23 اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ایسے واقعات طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات پر نہایت منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب پاکستان مزید خونریزی کا متحمل نہیں ہو سکتا، ’’ہم نے سنجیدگی اور نیک نیتی سے اے پی سی کے فیصلے کی روشنی میں مذاکرات کا عمل شروع کیا لیکن جب بھی حوصلہ افزاء موڑ پر پہنچے تو اس عمل کو سبوتاژ کر دیا گیا۔‘‘ پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ ایک نہایت ہی افسوسناک صورتحال ہے۔ جس پر پوری قوم کو دکھ ہے۔

حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی کے مطابق موجودہ صورتحال کی روشنی میں آئندہ کے لائحہء عمل کے لیے حکومتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس کل 18 فروری کو طلب کر لیا گیا ہے
حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی کے مطابق موجودہ صورتحال کی روشنی میں آئندہ کے لائحہء عمل کے لیے حکومتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس کل 18 فروری کو طلب کر لیا گیا ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

پیر کے روز وزیر اعظم ہاؤس سے جاری کیے گئے ایک اور بیان کے مطابق حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے آج اکوڑہ خٹک میں طالبان کمیٹی کے ساتھ مجوزہ ملاقات سے معذرت کر لی ہے۔ بیان مین حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اور وزیر اعظم کے قومی امور کے معاون عرفان صدیقی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایف سی کے 23 اہلکاروں کی شہادت کے واقعے کے فوری بعد اس طرح کا اجلاس بے مقصد ثابت ہوگا۔ عرفان صدیقی کے مطابق مذاکراتی کمیٹی نے اتفاق رائے سے اس واقعے کو افسوسناک اور قابل مذمت قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ مذاکراتی عمل کے دوران پے درپے اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات پر انتہائی منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’قوم ہم سے فوری مثبت نتائج کی توقع رکھتی ہے تاکہ وطن عزیز کو کئی سالوں سے جاری خونر یزی سے نجات ملے۔‘‘

دوسری جانب ارکان پارلیمان کی اکثریت نے بھی ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے حکومت سے شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر ایاز سومرو کا کہنا تھا، ’’اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہو گا۔ کافی ہوچکا، ہمارے پیارے ملک پاکستان کے غریب عوام نے ایسا کیا جرم کیا ہے کہ ان کو لاشوں کے تحفے دیے جارہے ہیں۔‘‘

پاکستانی طالبان کی جانب سے حالیہ دنوں میں سکیورٹی فورسز پر کئی خونریز حملے کیے گئے ہیں
پاکستانی طالبان کی جانب سے حالیہ دنوں میں سکیورٹی فورسز پر کئی خونریز حملے کیے گئے ہیںتصویر: Reuters

دوسری جانب طالبان کی نمائندہ کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کی جانب سے ملاقات سے انکار پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

صوبہ خیبر پختوانخواہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں اجلاس کے بعد کمیٹی کے ارکان مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی کمیٹی نے ہمیں طالبان قرار دے کر ملاقات سے انکار کر دیا جس پر افسوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج دونوں کمیٹیاں ملاقات کر لیتی تو کوئی راستہ نکل سکتا تھا۔ مولانا یوسف شاہ نے کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ حکومت فوجی آپریشن کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ گزشتہ 10سالوں میں کسی آپریشن کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ افراد، بچے اور عورتیں نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ ہزاروں افراد دونوں جانب سے لقمہء اجل بنیں گے۔ سینکٹروں بستیاں اجڑیں گی اور پورے ملک میں دہشتگردی کی شدید ترین لہر شروع ہو سکتی ہے۔‘‘

اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالات کی بوچھاڑ پر پروفیسر ابراہیم نے کہا، ’’طالبان قانوناً کالعدم اور زیر زمین ہیں ہمیں ان سے بات چیت میں مشکل پیش آتی ہے اس لیے بہت سے سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ہماری ثالث کی حیثیت کو برقرار رہنے دیں۔‘‘

ادھر حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی کے مطابق موجودہ صورتحال کی روشنی میں آئندہ کے لائحہء عمل کے لیے حکومتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس کل 18 فروری کو طلب کر لیا گیا ہے۔