ایل سیلواڈور کی بدمعاشوں سے بھری ’جہنم نما‘ جیلیں
لاطینی امریکی ملک ایل سیلواڈور کی جلیں بدمعاشوں سے بھر چکی ہیں۔ حکومت بدنام زمانہ مسلح گروہوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میں قتل کی وارداتوں میں کمی لائی جا سکے۔
لاطینی امریکا کی جیلوں کا شمار دنیا سب سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں میں ہوتا ہے۔ ایل سیلواڈور کی جیلیں تنگ ہیں اور قیدی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
ایل سلواڈور کو گزشتہ کئی دہائیوں سے گینگ وار کا سامنا ہے۔ منشیات فروش گروہ پھیل چکے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان گینگز سے وابستہ ہے جبکہ سرکاری جیلیں قیدیوں سے بھر چکی ہیں۔
ایل سیلواڈور وسطی امریکا کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے قتل کی وارداتوں کی سب سے زیادہ شرح اسی ملک میں بنتی ہے۔
لیکن روزانہ قتل کے حساب سے یہ شرح اب کم ہو رہی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں روزانہ سترہ سے اٹھارہ قتل ہوتے تھے۔ اکتوبر دو ہزار انیس میں یہ شرح یومیہ 3.6 تک آگئی۔ مارچ دو ہزار میں مزید کمی کے ساتھ یہ شرح 2.1 قتل فی دن تھی۔
صدر نیب بوکیلے نے جون دو ہزار انیس میں اقتدار سنبھالا۔ ان کے مطابق قتل کی وارداتوں میں کمی حکومت کی بڑی کامیابی ہے ۔ انہوں نے مسلح گینگز کے حوالے سے ’زیرو ٹولیرینس‘ پالیسی متعارف کروائی ہے۔
اس پالیسی کے تحت گینگ کے ارکان کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ موبائل فون کے استعمال پر مکمل پابندی ہے جبکہ انہیں ہفتے کے سات دن اور چوبیس گھنٹے جیل سیل کے اندر رکھا جاتا ہے۔
اگر جیل کے اندر اور باہر سکون ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تو اس کے عوض قیدیوں کو ملاقات کی اجازت مل جاتی ہے۔ حکومت نے مختلف حریف گروہوں کے بدمعاشوں کو بھی ایک ساتھ جیل میں رکھنا شروع کیا ہے۔
حکام کے مطابق ملک میں قتل کی اسی فیصد وارداتوں کے احکامات جیل کے اندر سے ہی جاتے تھے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ ان قیدیوں کو رہا کرنے سے ایسی وارداتوں میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان جیلوں کی سکیورٹی پر تعینات تمام پولیس اہلکاروں کو اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھنا پڑتا ہے تاکہ ان کی پہچان نہ ہو سکے۔ ماضی میں گینگ وار کے لوگ پولیس سے بدلہ لینے کے لیے ان کے گھر والوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ایل سیلوا ڈور کی جیلوں میں مجموعی طور پر 18051 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ لیکن اس وقت ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 38000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
ان جیلوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ بہت بڑھ چکا ہے۔ ماضی میں نامناسب حالات، سخت گرمی اور تپ دق جیسی بیماری بہت سے قیدیوں کی جان لے چکی ہے۔