ایلون مسک کا ٹرمپ پر ٹوئٹر کی پابندی ختم کرنے کا وعدہ
11 مئی 2022امریکہ کے ارب پتی کاروباری شخصیت ایلون مسک نے وعدہ کیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا ٹوئٹر کو خریدنے کا ان کا معاہدہ کامیاب ہو جاتا ہے، تو وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد ٹوئٹر کی مستقل پابندی کے فیصلے کو واپس لے لیں گے۔
ایلون مسک نے ٹوئٹر کو 44 ملین ڈالر میں خریدنے کی پیشکش کی ہے، جسے کمپنی نے منظور کر لیا ہے۔ تاہم ابھی بھی اس معاہدے کو شیئر ہولڈرز اور مالیاتی ریگولیٹرز کی حمایت حاصل کرنے کا عمل باقی ہے۔
پابندی کا فیصلہ 'انتہائی احمقانہ'
فنانشل ٹائمز کے زیر اہتمام مستقبل کے حوالے سے ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران مسک نے اپنے بیان میں ٹرمپ پر عائد پابندی کو ''اخلاقی طور پر برا فیصلہ'' اور ''انتہائی احمقانہ'' قرار دیا۔
ایلون مسک نے کہا، ''میرے خیال میں یہ ایک غلطی تھی کیونکہ اس کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا حصہ الگ تھلگ پڑ گیا اور بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ کی آواز بھی بند ہو گئی۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ایک ہی فورم رہنا بدتر بات ہے اور اسے ایسا ہونا چاہیے جہاں ہر کوئی بحث کر سکے۔ میرے خیال سے اس کا جواب یہ ہے کہ میں اس مستقل پابندی کو ختم کر دوں گا۔''
مسک نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر انہوں نے کنٹرول حاصل کر لیا، تو وہ مواد سے متعلق اعتدال پسندانہ پالیسیوں میں بھی نرمی کریں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ پالیسیاں آزادی اظہار کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ٹوئٹر نے ٹرمپ پر پابندی کیوں لگائی تھی؟
ٹوئٹرنے جنوری 2021 میں امریکہ کی کیپیٹل ہل کی عمارت میں ہنگامہ آرائی کے بعد ٹرمپ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ادارے کا الزام تھا کہ صدر ٹرمپ ٹوئٹر پر غلطی بیانی سے کام لیتے ہوئے اشتعال انگیزی میں ملوث ہو رہے ہیں۔
ٹرمپ کے حامیوں نے سن 2020 کے صدارتی انتخابات کے سرٹیفیکیشن کو روکنے کے لیے آخری موقع پر کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا، جس میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ اپنے حریف ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن سے ہار گئے تھے۔
ٹرمپ نے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کے لیے زیادہ تر استعمال ٹوئٹر کو کیا تھا اور مسلسل یہ جھوٹا دعویٰ کرتے رہے تھے کہ ووٹوں کے تعلق سے بائیڈن کے حق میں بڑے پیمانے پر فراڈ ہوا ہے۔ یہ الزامات بھی عائد کیے گئے تھے کہ کیپیٹل ہل میں تشدد کو ہوا دینے کے لیے ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کا استعمال کیا۔ اسی کی وجہ سے امریکی ایوان نمائندگان نے صدر کے خلاف دوسری بار مواخذے کی کارروائی بھی کی تھی۔
اس وقت ٹوئٹر نے کہا تھا کہ اس نے فسادات کے بعد ''تشدد بھڑکانے'' کی وجہ سے ٹرمپ پر پابندی عائد کی۔ اس وقت ٹرمپ اپنے بیانات کی تشہیر اور اپنے حامیوں اور وسیع تر عوام کے ساتھ رابطے کے لیے ٹوئٹر کا ہی استعمال کرتے تھے اور کبھی کبھار ریلیاں بھی نکالی تھیں۔
اگر ایلون مسک ٹوئٹر پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو بھی ٹرمپ یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ پیغام رسانی کی اس سروس کا دوبارہ استعمال نہیں کریں گے۔ سابق صدر نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ ٹوئٹر پر واپس آنے کے بجائے اپنا وقت اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل' پر مرکوز کرنے کو ترجیح دیں گے۔
مسک کے بیان پر رد عمل کیا ہے؟
بائیں بازو کی طرف میلان رکھنے والے ادارے 'میڈیا میٹرز' کے سربراہ اینجلو کیروسون کا کہنا ہے کہ مسک کا ٹرمپ کو بحال کرنے کا منصوبہ، پلیٹ فارم پر ''نفرت اور غلط معلومات کا سیلاب'' کھولنے کی جانب پہلا قدم ہو گا۔
لیکن امریکن سول لبرٹیز یونین کے ڈائریکٹر انتھونی رومیرو نے کہا کہ ٹرمپ کو دوبارہ پلیٹ فارم پر لانے کا فیصلہ درست ہے۔ رومیرو نے کہا، ''یہ پسند ہو یا نہ ہو، تاہم صدر ٹرمپ اس ملک کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک ہیں، اور عوام ان کی تقریر سننے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔''
اپنے عہدہ صدارت کے دوران ٹرمپ ٹوئٹر کا استعمال اس قدر کرتے تھے کہ کئی بار اپنے ایگزیکٹو حکمناموں کا اعلان بھی اسی پر کر دیتے تھے اور اسی پر کابینہ کے اراکین کو برطرف کرنے کا بھی اعلان کیا۔ وہ اپنے ناقدین اور سابق نائب صدر ہلیری کلنٹن اور امریکی پارلیمان کی اسپیکر نینسی پیلوسی جیسی شخصیات پر تنقید کرنے اور طنز کرے کے لیے بھی ٹوئٹر کا استعمال کرتے تھے۔
جھوٹے بیانات کے علاوہ کئی بار ان کی ٹویٹس پر نسل پرستانہ ہونے کا بھی الزام عائد ہوا اور اس کے لیے ان پر نکتہ چینی بھی ہوئی۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)