ایودھیا مسجد کی راہ میں نئی رکاوٹ، پاکستان کنکشن
5 فروری 2021ایودھیا میں منہدم تاریخی بابری مسجد کے متبادل کے طور پر بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت نے دھنی پور گاؤں میں ایک مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ اراضی الاٹ کی تھی۔لیکن دہلی میں رہنے والی دو بہنوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ یہ زمین ان کی ملکیت ہے۔
یہ نیا تنازعہ ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب صرف دس دن قبل ہی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اور بیشتر مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے اس سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومتی فیصلہ قرار دیا تھا۔
رانی کپور عرف رانی بلوجہ اور رما رانی پنجابی نامی دو بہنوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے ایودھیا کے دھنی پور گاؤں میں مسجد کی تعمیر لیے انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کو پانچ ایکڑ زمین دینے کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔
ان بہنوں کا کہنا ہے کہ ان کے والد گیان چند رپنجابی 1947ء میں تقسیم وطن کے بعد پاکستان کے پنجاب سے بھارت آئے تھے اور فیض آباد(اب ایودھیا) ضلع میں محکمہ اراضی میں ملازمت اور وہیں سکونت اختیار کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ محکمہ اراضی نے ان کے والد کو دھنی پور گاؤں میں 28 ایکٹر زمین پانچ برس کے پٹے پر دی، جس میں بعد میں توسیع ہوتی رہی۔اس کی رسید اور دیگر سرکاری دستاویزات بھی ان کے پاس موجود ہیں۔
ان بہنو ں کا کہنا ہے کہ بعد میں سرکاری ریکارڈ سے ان کے والدکا نام حذف کر دیا گیا۔انہوں نے اس کے خلاف ایودھیا کے ایڈیشنل کمشنر سے بھی رابطہ کیا تھا، جنہوں نے ان کا نام بحال کر دیا۔ تاہم ایک دیگر افسرنے ان کے والد کا نام ایک بار پھر حذف کر دیا جس کے خلاف فی الحال ایک مقدمہ زیر التوا ہے۔
دونوں بہنوں کا دعوی ہے کہ حکومت نے اس مقدمے کا فیصلہ کیے بغیر ہی ان کی 28 ایکٹر زمین میں سے پانچ ایکڑ مسجد کی تعمیر کے لیے سنی وقف بورڈ کو دے دی۔ ان کے وکیل کے مطابق اس معاملے پر آٹھ فروری کو سماعت متوقع ہے۔
تنازعے سے نمٹنا حکومت کی ذمہ داری
ایودھیا میں نئی مسجد کی تعمیر کا نظم و نسق دیکھنے کے لیے تشکیل شدہ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کا اس نئے تنازعے پر کہنا ہے کہ حکومت نے یہ اراضی فراہم کی ہے اور اس مسئلے سے بھی حکومت ہی نمٹے گی۔
فاؤنڈیشن کے سکریٹری اور ترجمان اطہر حسین نے اس حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہمیں اس عرضی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ درخواست دینے والو، ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ کامسئلہ ہے۔ ہمیں تو حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر یہ پانچ ایکڑ زمین فراہم کی ہے۔اس لیے اسے ہی یہ دیکھنا ہے کہ یہ متنازعہ ہے یا نہیں۔"
دوسری طرف ضلع کے ایس ڈی ایم اشوک کمار کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق زمین حکومت کی ہے اور اگر عدالت کوئی نوٹس بھیجتی ہے تو اس کا معقول جواب دیا جائے گا۔
بیشتر مسلمانوں کو نئی 'مسجد‘میں کوئی دلچسپی نہیں
خیال رہے کہ اس سے قبل اس نئی مسجد کا سنگ بنیاد سے مسلمانوں کی بیشتر جماعتوں اور تنظیموں نے خود کو الگ کر لیا تھا۔
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے نئی 'مسجد‘ کے سنگ بنیاد سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قدم نہ صرف 'شریعت‘ کے خلاف بلکہ بھارت کے وقف قانون کے بھی خلاف ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سینیئر رکن اور سپریم کورٹ کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہاتھا کہ نئی 'مسجد‘ کا سنگ بنیاد نہ صرف 'شریعت‘ کے خلاف بلکہ بھارت کے وقف قانون کے بھی خلاف ہے۔
ظفر یاب جیلانی کا کہنا تھا'' اگر کوئی غیر شرعی کام ہو رہا ہے تو ہم اس کو طاقت سے تو روک نہیں سکتے۔ جو ایسا کر رہا ہے وہ اس کا ذمہ دار ہے اور یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس مسجد میں کوئی مسلمان نماز پڑھے گا یا نہیں۔"