ایٹمی دھماکوں کی سترہویں سالگرہ، بلوچستان میں یومِ سیاہ
28 مئی 201528 مئی 1998ء کو ضلع چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے خلاف آج بلوچستان میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی جا رہی ہے اور صوبے کےمختلف علاقوں میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے، جن میں بلوچ سرزمین پر ایٹمی دھماکوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ، مستونگ، قلات، نوشکی، چاغی، پنجگور، تربت اور بعض دیگر علاقوں میں یومِ تکبیر کے موقع پر منائے جانے والے یومِ احتجاج کے دوران مظاہرین نے ریلیاں نکالیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور کتبے اٹھا رکھے تھے، جن پر چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے خلاف مختلف نعرے درج تھے۔
شٹر ڈاؤن ہڑتال کے موقع پر صوبے بھر میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور اہم سرکاری عمارتوں اور حساس علاقوں میں دہشت گردی کے کسی بھی ممکنہ واقعے کی روک تھام کے لیے سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔
پنجگور، نوشکی اورملحقہ علاقوں میں احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے سڑکوں پر ٹائر بھی جلائے اور ٹریفک بھی معطل کر دی جبکہ تربت اور دشت کے علاقوں میں حکومت مخالف احتجاج میں خواتین اور بچوں نے بھی حصہ لیا۔
بلوچستان میں عوام کے حقوق کے لیے سرگرم قوم پرست جماعت بلوچ سالویشن فرنٹ بی ایس ایف کے ایک ترجمان نے اٹھائیس مئی کے دن کو بلوچ عوام کے لیے ایک سیاہ دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ چاغی میں ایٹمی دھماکوں کے دوران حکومت نے انسانی حقوق کی سنگین پامالی کی۔ کوئٹہ میں جاری کیے گئے اس فرنٹ کے ایک بیان میں بی ایس ایف کے ترجمان نے کہا، ’’ضلع چاغی میں بلوچ سرزمین پر ایٹمی تجربات کے باعث وسیع علاقے میں جو تابکاری پھیل گئی تھی اس کے اثرات ابھی تک وہاں موجود ہیں۔ لاکھوں نفوس پر مشتمل بہت سے دیہات میں جوہری تجربات کی وجہ سے لوگوں کے لیے پینے کا صاف پانی ناپید ہو چکا ہے۔ تابکاری نے لوگوں کے اربوں مالیت کے باغات تک کو تباہ کردیا ہے۔ شدید خشک سالی کی وجہ سے لوگ مجبوراﹰ متاثرہ دیہات سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔‘‘
معروف بلوچ دانشور عزیز الدین بلوچ کا کہنا ہے کہ 28 مئی کا دن پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لیے تو ایک اہم دن ہے لیکن بلوچستان میں یہ دن عوام کے دلوں میں حکومت کی’ استحصالی پالیسیوں‘ کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بلوچستان میں بسنے والی قومیں بالخصوص بلوچ قبائل چاغی کے ایٹمی تجربات پر ہمیشہ تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان جوہری تجربات سے قبل حکومت نے جو وعدے کیے تھے، ان میں سے کسی ایک کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ مرکزی حکومت نے دھماکوں کے بعد اس پسماندہ صوبے کے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا اور نہ ہی ایسے انتطامات کیے، جن سے متاثرہ علاقوں کے لوگ تابکاری اثرات سے محفوظ رہتے۔‘‘
عزیزالدین بلوچ نے مزید کہا کہ ایٹمی تجربات کے بعد حکومت نے اس امر پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی کہ ان جوہری تجربات سے مقامی لوگ کس قدر متاثر ہو ئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ جوہری دھماکے ملک کے کسی دوسرے حصے میں بھی تو ہو سکتے تھے، لیکن وہاں یہ دھماکے کیوں نہیں کیے گئے؟ ہمارے لیے یہ امرکافی مضحکہ خیز ہے کہ حکومت اس صوبے کے عوام کو ہمیشہ فرضی نعروں سے ہی بیوقوف بناتی رہی ہے اور عملی طور پر عوام کو درپیش مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر چاغی اور دیگر متاثرہ علاقوں میں تابکاری اثرات کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے اور متاثرہ لوگوں کو ریلیف دے۔‘‘
ضلع چاغی کی سماجی تنظیم چاغی رائٹس موومنٹ کے رہنما عابد سنجرانی کے بقول ان کےعلاقے میں جوہری تجربات سے پانی کی زیر زمین سطح بہت نیچے گرگئی ہے، اس وجہ سے وہاں لوگوں کے لیے گزر بسر کرنا دن بہ دن دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ایٹمی دھماکوں سے چاغی اور مضافات میں مقیم لوگ جلد اور پیٹ کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔ حکومت نے اُس وقت ان لوگوں کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا تھا۔ یہاں اب بھی تابکاری کے شدید اثرات موجود ہیں اور لوگ مختلف امراض کا شکار ہیں۔ ہماری اپیل ہے کہ حکو مت متاثرہ لوگوں کے علاج اور تابکاری اثرات کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔‘‘
اٹھائیس مئی 1998ء کے روز پاکستان اپنے صوبے بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بن گیا تھا۔ جوہری تجربات کے لیے ایٹم بم چاغی کے علاقے میں کوہ کامبران میں کھودی گئی خصوصی سرنگ میں نصب کیے گئے تھے۔ اس سرنگ کو26 مئی 1998ء کے روز دھماکوں سے دو دن قبل بند کر دیا گیا تھا۔ بعد میں 28 مئی کو سہ پہر تین بجے کے قریب یہ دھماکے کیے گئےتھے، جن سے گہرے بھورے رنگ کا حامل کوہ کامبران پہلے سفید اور بعد میں تیز خاکی رنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔