ایڈز کی وجوہات، نسل پرستی اور جنسیت
19 جولائی 2016جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں گزشتہ روز ہونے والی عالمی ایڈز کانفرنس میں 1800 مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے تھیرون نے کہا،' آئیے خود سے سوال کریں کہ ہم اس بیماری پر قابو کیوں نہیں پا سکے۔ کیا یہ اس لیے ہے کہ ہم ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔‘‘
اداکارہ نے اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا،’’ ہم کچھ انسانوں کو دیگر انسانوں پر فوقیت دیتے ہیں ، جیسے خواتین کے مقابلے میں مردوں کو اور گہری رنگت والے افراد پر سفید رنگت کے لوگوں کو۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی روک تھام کے تما م ذرائع موجود ہیں۔ ‘‘ تھیرون کے مطابق تمام سہولیات ہونے کے باوجود سن 2015 میں 2.1 ملین افراد ایچ آئی وی کے وائرس سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات میں نسل پرستی، جنسیت اور ہم جنس پرستوں کے خلاف نفرت یا ان سےخوف شامل ہے۔
پانچ روزہ کانفرنس کے آغاز پر خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ایچ آئی وی مثبت سینتیس ملین افراد کا نصف حصہ آج بھی زندگی بچانے والی ادویات سے محروم ہے۔ بان کی مون نے مزید کہا کہ،’’ عالمی برادری کی حیثیت سے ہمیں اپنے اہداف کی طرف فوری اور فیصلہ کن طور پر بڑھنا ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم اس تباہ کن مرض سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
ایڈز کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایڈز کے ڈائریکٹر میشیل سیڈیبے نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ میں خوفزدہ ہوں کیونکہ یہ پہلی بار ہے کہ عطیہ کرنے والے افراد کی جانب سے ملنے والی رقوم میں کمی نظر آرہی ہے۔‘‘ سیڈیبے کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں اقوام متحدہ سن 2030 تک ایڈز پر قابو پانے کا اپنا ہدف حاصل نہیں کر پائے گی اور اس کے دوبارہ پھیلنے کا خدشہ بھی ہے۔
اس سے قبل عالمی ایڈز سوسائٹی کے سربراہ کرس بیرر نے جرمن خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج نے دنیا کے لیے ایڈز سے مقابلہ کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ بیرر جو ایڈز کے لیے پیشہ ور افراد کی سب سے بڑی عالمی تنظیم کے سربراہ ہیں، کا کہنا تھا کہ بریگزیٹ ایڈز کے حوالے پریشان کن پیش رفت ہے۔ بیرر نے ایڈز پر ریسرچ کے حوالے سے برطانیہ کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ،’’ ایڈز کی عالمی سطح پر روک تھام کے لیے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ساتھ مشترکہ کاوشوں میں رقوم عطیہ کرنے والے برطانوی افراد کا کردار اہم رہا ہے۔ تاہم برطانیہ میں ایڈز پر ہونے والی تحقیق کے لیے فنڈز کا ایک مناسب حصہ یورپی یونین کی طرف سے دیا جاتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ جنوبی افریقہ عالمی سطح پر ایچ آئی وی سے شدید متاثر ممالک میں سے ایک ہے۔ ایچ آئی وی کے انفیکشن کے نتیجے میں موت کے منہ میں جانے والے سالانہ 1.1 ملین افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقہ سے ہوتا ہے۔