ایک آزاد ریاست کے لئے فلسطینی قیادت کی نئی کوششیں
2 جنوری 2011مغربی کنارے میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران دو فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ ہلاکت کے پہلے واقعے میں ایک فلسطینی خاتون آنسو گیس کے شیل کا نشانہ بنیں۔ دوسرے واقعے میں ایک نوجوان کو چیک پوسٹ کے قریب آتے دیکھ کر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کے کرکے ہلاک کر دیا۔ فوج نے تسلیم کیا کہ مارا جانے والا نوجوان مسلح نہیں تھا تاہم وہ ممنوعہ علاقے میں فوج کی جانب بڑھ رہا تھا۔
فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کے ترجمان نے ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے امن عمل کو ناکام کرنے کی ایک کوشش قرار دیا۔ دریں اثناء فلسطینی رہنما مشرق وسطیٰ تنازعے کے حل کے لئے روایتی امن مذاکرات کے ساتھ ساتھ دیگر امکانات کو بھی بروئے کار لانے کے لئے سرگرم ہوگئے ہیں۔ صدر محمود عباس براعظم امریکہ میں آزاد فلسطینی ریاست کے پہلے سفارتخانے کی بنیاد برازیل میں رکھ چکے ہیں۔
برازیل کی جانب سے فلسطین کو 1967ء کی سرحدوں کے مطابق تسلیم کئے جانے کے بعد اب دونوں نے ایک دوسرے کے زیر انتظام علاقے میں اپنا اپنا سفارتخانہ کھول دیا ہے۔ لاطینی امریکہ کی اس بڑی معیشت کی پیروی کرتے ہوئے ارجنٹائن، بولیویا اور ایکواڈور بھی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں جبکہ کئی ممالک نے جلد ایسا کرنے کی یقین دہانیاں کرائی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی زور ڈال رہے ہیں کہ اگر اسرائیل ان کے مطالبات نہیں مانتا تو وہ فلسطینی انتظامیہ تحلیل کر دیں گے۔ ایسا کرنے سے 1993ء کا اوسلو امن معاہدہ ختم ہوجائے گا اور لگ بھگ ڈھائی ملین فلسطینیوں کی تمام تر معاشی و سیاسی امور کی ذمہ داری کا بوجھ براہِ راست اسرائیلی حکومت پر پڑ جائے گا۔
برازیل میں اپنے خطاب کے دوران صدر محمود عباس عالمی طاقتوں پر زور دے چکے ہیں کہ وہ تنازعے کے حل کے لئے کوئی نیا منصوبہ پیش کریں۔ برازیل کے سابق صدر لولا ڈی سلوا اپنے ایک خطاب میں امریکہ پر زور دے چکے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ کے معاملے کی ’سرپرستی‘ چھوڑ دے۔
فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کے اسرائیلی منصوبوں کا معاملہ امن مذکرات کی بحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی خواہش ہے کہ اپنے لئے آزاد ریاست ستمبر 2011ء تک حاصل کر لیں۔ امریکی صدر باراک اوباما بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں اسی عرصے کے دوران فلسطینی ریاست کے قیام کی امید ظاہر کر چکے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امجد علی