ایک اور بنگلہ دیشی سیکولر بلاگر ہلاک
12 مئی 2015سلہٹ کے ڈپٹی کمشنر فیصل محمود کے مطابق نامعلوم نقاب پوش حملہ آوروں نے اننتا بجوئے داس کو صبح قریب ساڑھے آٹھ بجے نشانہ بنایا اور خنجروں کے وار کرتے ہوئے اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ بنگلہ دیشی بلاگرز ایسوسی ایشن کے سربراہ عمران سرکار کے مطابق ہلاک ہونے والا بلاگر لادین تھا اور موکتو مونا کے نامی ویب سائٹ کے لیے لکھتا تھا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے ایک سینیئر پولیس آفیسر محمد رحمت اللہ نے بھی اس واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ سیکولر نظریات کا پرچار کرنے والے بلاگر اننتا بجوئے داس پر آج صُبح سویرے چار افراد نے حملہ کیا۔ رحمت اللہ کے بقول مقتول کی عمر 33 برس تھی اور وہ ایک بینک ملازم تھا۔
داس ’ موکتو مونا‘ نامی ایک ویب سائٹ کے لیے لکھا کرتا تھا۔ اس کا مطلب فری مائینڈ یا آزاد ذہن ہے۔ اپنی تحریروں کے ذریعے وہ عقلیت پسندی کا پرچار اور بنیاد پرستی کے خلاف پروپگینڈا کیا کرتا تھا۔ بنگلہ زبان کی یہ ویب سائٹ دراصل امریکا میں مقیم بنگلہ دیشی بلاگر آویجیت رائے کی تخلیق ہے۔ آویجیت 26 فروری کو بنگلہ دیش میں ایک ایسے ہی انتہا پسندانہ حملے میں مارے گئے۔ وہ اور اُن کی اہلیہ رافیدہ احمد ایک کتاب میلے سے اپنے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے کہ اُن پر دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں اُن کی اہلیہ رافیدہ احمد شدید زخمی بھی ہوئی تھیں۔ انہیں سر پر گہرے زخم آئے تھے۔ واضح رہے کہ رائے اس کتاب میلے میں اپنی کتاب 'وائرس آف فیتھ‘ یا 'مذہب کا جراثیم‘ مشتہر کرنے گئے تھے۔
گزشتہ پیر کو امریکا میں روئٹرز کو دیا گیا فریدہ کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے اپنے شوہر کے قتل کو ’ گلوبل ایکٹ آف ٹیررازم‘ یا عالمی دہشت گردی قرار دیا تھا۔
گزشتہ برسوں کے دوران بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات میں حملہ آوروں نے سکیولر مصنفین کو نشانہ بنایا۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کی حکومت اُن اسلامک گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے جو 160 ملین کی آبادی پر مشتمل اس جنوبی ایشیائی ملک میں شریعہ کے نفاذ کی کوششیں کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پیر تیس مارچ کو ایک اور بنگلہ دیشی بلاگر، ستائیس سالہ واثق الرحمان بابو پر ڈھاکہ کے ایک علاقے بیگن باڑی میں اُن کے گھر سے نزدیک حملہ کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ یہ حملہ تین افراد نے کیا تھا، جن میں سے دو کو واردات کے بعد فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔
واثق الرحمان کو حملے کے فوراً بعد ایک سرکاری ہسپتال لے جایا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں نے اُس کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزمان کے قبضے سے تین بڑی چھریاں بھی برآمد ہوئی تھیں، جو عام طور پر گوشت کاٹنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ملزمان نے پولیس کو بتایا تھا کہ اُنہوں نے بابو کو اُس کی اسلام مخالف تحریروں کی وجہ سے قتل کر دیا۔
قتل کے یہ تمام واقعات 2013 ء میں اسی طرح کے ایک اور قتل کے بعد سامنے آئے ہیں۔ تب احمد راجب حیدر کو شدت پسندوں نے اس لیے ہلاک کر دیا تھا کہ انہوں نے 1971 ء کی جنگ آزادی کے دوران مبینہ طور پر سفاکاکانہ مظالم میں ملوث ہونے والے اسلامی لیڈروں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرنے والوں کی پُشت پناہی کی تھی۔