ایک بڑا جرمن وفد ایران کے دورے پر، اربوں کے معاہدے متوقع
2 اکتوبر 2016یہ وفد اتوار کو روانہ ہو رہا ہے اور اس کا دورہ منگل تک جاری رہے گا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس دورے سے جرمنی اور ایران کے مابین تجارتی تعلقات کو پھر سے مستحکم کرنے کی امید کی جا رہی ہے تاہم ساتھ ہی یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کچھ باقی ماندہ امریکی اقتصادی پابندیوں اور سیاسی خدشات کے باعث ان تعلقات کے راستے میں کئی رکاوٹیں بھی آ سکتی ہیں۔
پندرہ سال کے وقفے کے بعد پہلی مرتبہ ایک ایرانی جرمن تجارتی کمیشن کا اجلاس ہو گا اور اس میں ٹھوس کاروباری معاہدوں کا بھی اعلان کیا جائے گا تاہم جرمن وزیر اقتصادیات نے جمعے کے روز ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اُسے اسرائیل کی بقا کے حق کو تسلیم کرنا ہو گا اور شام کی جنگ میں اپنے ’فیصلہ کن کردار‘ کو بھی ختم کرنا ہو گا۔
اُدھر تہران حکومت کا موقف یہ ہے کہ ایران اور جرمنی کے تعلقات پر کسی قسم کی پیشگی شرائط کے بغیر بات ہونی چاہیے اور یہ کہ ایران اپنے داخلی معاملات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو رَد کر کرتا ہے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ڈیل پر اتفاقِ رائے گزشتہ سال جولائی میں ہوا تھا، جس کے بعد سے گابریئل کا یہ دوسرا دورہٴ ایران ہے۔ اس ڈیل کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور اس کے بدلے میں اُس کے خلاف عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
ان پابندیوں کے خاتمے کے بعد جرمن کاروباری اداروں کے لیے جو بے پناہ مواقع دستیاب ہوں گے، اُن سے مستفید ہونےوالے اولین بڑے صنعتی جرمن اداروں میں سیمینز اور موٹر گاڑیاں بنانے والا ادارہ ڈائملر شامل ہیں۔
ہیمبرگ میں قائم جرمن ایرانی چیمبر آف کامرس کے سربراہ مشائیل ٹوکُس کے مطابق اس سال کی پہلی ششماہی میں ایران کو جانے والی جرمن برآمدات پندرہ فیصد کے اضافے کے ساتھ 1.13 ارب یورو تک پہنچ گئیں جبکہ اس پورے سال میں یہ حجم چار ارب یورو تک پہنچ سکتا ہے۔
گابریئل کی طرح سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے اس سال فروری میں ایرانی صدر حسن روحانی کو جرمنی کے دورے کی دعوت دی تھی تاہم مخلوط حکومت میں چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے ارکان ایک ہی وقت میں دو علاقائی حریفوں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنے کے حوالے سے فکر مند ہیں اور موجودہ حالات میں روحانی کے دورے کی مخالفت کر رہے ہیں۔