ایک لڑکی کا خواب، کابل میں پہلا بالنگ مرکز
30 اکتوبر 2011اس سینٹر کی مالکن مینا رحمانی کے لیے یہ بہت بڑی سرمایہ کاری ہے اور پرخطر بھی۔ 12 لائنز پر مشتمل یہ سینٹرکابل کے درمیانے طبقے کے لیے بنایا گیا ہے، رحمانی کہتی ہیں، ’’ہم اپنے بالنگ سینٹر کا مغربی ممالک سے موازنہ نہیں کر سکتے لیکن افغانستان کو ایسی جگہ کی ضرورت تھی۔‘‘
رحمانی کے مطابق ان کے لیے یہ کام آسان نہیں تھا۔ سینٹر کے لیے سارا ساز وسامان بیرون ملک سے درآمد کیا گیا۔ انجینئر چین سے آئے۔ صنعتی پیمانے پر استعمال ہونے والے بڑے جنریٹر لگائے گئے۔ اہم دروازے کو بم پروف بنایا گیا ہے اور اس کے سامنے اے کے 47 لیے حفاظتی گارڈ کھڑے ہیں۔ رحمانی کہتی ہیں، ’’یہ بہت بڑا پراجیکٹ تھا لیکن ہم نے بھی ٹھان لیا تھا کہ اسے مکمل کرنا ہی ہے۔‘‘
رحمانی کا کہنا ہے کہ جس ملک میں تفریح کے ذرائع کی قلت ہو وہاں یہ بالنگ سینٹر ایک اضافی کشش ثابت ہوگا لیکن اس کی ثقافتی اہمیت بھی ہے۔ یہ ایسی جگہ ہوگی، جہاں خواتین، مرد اور اہلخانہ اپنے بچوں سمیت راحت کے کچھ پل گزار سکیں گے۔ ایک ایسی جگہ، جہاں وہ مذہبی، سماجی اور ثقافتی بندھنوں سے دور سکون سے رہ سکیں گے۔ ’دی سٹرائیكرز‘ کے کھلنے کے ایک ماہ کے اندر یہ سب نظر آنے بھی لگا ہے۔ حالانکہ یہاں کھیلنے والے زیادہ تر لوگوں نے بالنگ بیرون ملک میں سیکھی ہے لیکن ’دی سٹرائیكرز‘ اپنا مقام بنا چکا ہے۔ 29 سال کے تاجر نوید صدیقی کہتے ہیں، ’’چھٹی کے دن ہم بے وجہ گلیوں میں گھومتے رہتے تھے۔ میں اپنا ويک اینڈ فیس بک سے شروع کرتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ آن لائن چیٹنگ چلتی رہتی تھی۔ نماز کے بعد لوگ پکنک پر چلے جاتے، بیٹھتے اور گپ شپ کرتے، یہ جگہ بہتر ہے اور اب ہمارے اندر کچھ جوش بھی ہے‘‘
50 لاکھ افراد پر مشتمل کابل میں حکومت کی طرف سے تفریح کے لیے کچھ زیادہ مواقع فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ بچوں کے لیے کچھ پارک بنائے گئے ہیں، جن میں سے ایک تو قبرستان میں ہے لیکن گزشتہ مہینوں میں چیزیں بدلی ہیں۔ اب یہاں بڑی تعداد میں سنوكر کلب کھل گئے ہیں لیکن صدیقی جیسے لوگ ان جگہوں پر جانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کے مطابق وہاں جو لوگ آتے ہیں وہ ’آزاد خیال‘ نہیں ہیں۔
مینا رحمانی نے سن 1992 میں افغانستان چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ 15 سال بھارت میں رہیں۔ وہاں سے وہ کینیڈا چلی گئیں، جہاں انہوں نے پڑھائی مکمل کی۔ کئی سال پہلے جب وہ اپنے ملک کے دورے پر آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کے پاس فارغ وقت میں کرنے کے لیے کچھ خاص نہیں ہے اور تب ان کے ذہن میں بالنگ سینٹر کھولنے کا خیال آیا۔ ایک مہینہ پہلے ان کا یہ خیال حقیقت میں بدل گیا۔
اس سینٹر میں ایک گھنٹہ بالنگ کھیلنےکی قیمت 35 ڈالر ہے یعنی تقریباﹰ تین ہزار پاکستانی روپے، لیکن یہ تین ہزار روپے چھ لوگ مل کر بھی دے سکتے ہیں۔ یہاں پر ایک کپ کافی پانچ ڈالر یعنی 430 روپے میں ملتی ہے۔ رحمانی جانتی ہیں کہ یہ قیمت بہت سارے لوگوں کی ایک دن کی کمائی سے بھی زیادہ ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ اخراجات کو پورا کرنے کے علاوہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، ’’ ہاں ، اگر مانگ بڑھتی ہے تو قیمتیں کم ہوسکتی ہیں۔‘‘ مینا رحمانی پورے ملک میں ایسے بالنگ سینٹر بنانا چاہتی ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عابد حسین