Abschluss EU-Sondergipfel
22 جولائی 2011’’کیا عنقریب آئرلینڈ اور پرتگال کے لیے بھی دوسری دوسری مرتبہ امدادی پیکجز کا اعلان کیا جائے گا؟ کیا عنقریب اسپین اور اٹلی کے لیے بھی ایک ایک امدادی پیکج متعارف کروایا جائے گا؟ آخر یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟ اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اگر ہر بار کوئی نہ کوئی آپ کو مشکل حالات سے نکال لے گا تو بچتی بجٹ سامنے لانے کی ترغیب کہاں باقی رہے گی؟
یورپی مرکزی بینک سے وابستہ رہنے والے سابق ماہر معاشیات اوٹمار اسنگ کے خیال میں قرضوں کی شرائط میں نرمی دیے جانے کی صورت میں یونان کو کرنسی یونین سے نکل جانا چاہیے۔ یہ مطالبہ کچھ زیادہ ہی سخت معلوم ہوتا ہے لیکن جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ بھی خاصے معقول نظر آ رہے ہیں۔
گزشتہ چند روز کے دوران اِنہی دو انتہاؤں کی عکاسی کرنے والے مطالبات اور توقعات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس سربراہ کانفرنس میں کوئی بہت ہی انقلابی فیصلہ سامنے نہیں آئے گا۔ اگرچہ نجی شعبے کے مالیاتی اداروں کی شرکت ایک نئی بات ہے لیکن جزوی طور پر قرضے نہ ملنے کی متوقع صورتِ حال کو چند روز تک ہی محدود رکھنے اور خصوصی فنڈ EFSF یعنی یوروپین فنانشل سٹیبلٹی فیسلٹی کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یونان کو ایک طرح کے ’مارشل پلان‘ کے ذریعے پھر سے مقابلہ بازی کے قابل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یونان ہی کو نہیں بلکہ امدادی پیکج وصول کرنے والے باقی دونوں ممالک آئر لینڈ اور پرتگال کو بھی نرم شرائط پر قرضے دیے جائیں گے تاکہ اُن کی معاشی بہتری کا عمل رُک نہ جائے۔ اب تک کی صورتِ حال کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھا جائے تو یہ کافی بڑے اقدامات ہیں۔
سوال لیکن یہ ہے کہ کیا اتنا کچھ ہی کافی ہے؟ مالیاتی منڈیوں کا ابتدائی ردعمل مثبت ہے تو کیا ہوا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب تک یورو زون کی حکومتیں ہمیشہ مالیاتی منڈیوں کے پیچھے پیچھے بھاگتی رہی ہیں۔ ہر سربراہ کانفرنس کے بعد کہا گیا کہ اب معاملات قابو میں ہیں۔ چند ہی مہینے بعد مالیاتی منڈیوں کو واضح پیغام دینے کے لیے اگلی سربراہ کانفرنس بلانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود محتاط اقدامات کو ترجیحی اہمیت دی جانی چاہیے۔ لوگ ڈرامائی اقدام کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن اگر ایسا کوئی اقدام ناکامی سے دوچار ہو گیا تو پھر اُس کے نتائج بھی ڈرامائی ہوں گے۔ ایسے ڈرامائی حل زیادہ تر اُن ملکوں کی جانب سے تجویز کیے جاتے ہیں، جنہیں پتہ ہوتا ہے کہ اِن کے نتائج خود اُنہیں نہیں بھگتنا پڑیں گے۔ مزید تین خصوصی سربراہ کانفرنسیں بلانا اور پہلے سے کیے گئے اقدامات کو مزید بہتر بنانا اُس ایک ڈرامائی قدم سے کہیں بہتر ہے، جو تباہی کے دہانے کی طرف لے جائے۔‘‘
رپورٹ: کرسٹوف ہاسل باخ (برسلز) / امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ