ایکواڈور کا سفارتخانہ جلد چھوڑ دوں گا، جولیان اسانج
18 اگست 2014جولیان اسانج نے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں دو سال قبل پناہ لی تھی۔ اسی سفارتخانے میں پیر 18 اگست کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسانج نے کہا، ‘‘میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں اس سفارتخانے سے جلد ہی رخصت ہو جاؤں گا۔‘‘
وکی لیکس کے بانی نے مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ان کی لندن میں قائم ایکواڈور کی ایمبیسی سے آئندہ رخصتی کی وجوہات وہ نہیں ہوں گی، جو ارب پتی کاروباری شخصیت مرڈوک کی ملکیت اخبارات کی طرف سے بیان کی گئی ہیں۔
قبل ازیں برطانوی میڈیا میں مبینہ طور پر وکی لیکس کے ذرائع کے حوالے سے گزشتہ ویک اینڈ پر یہ رپورٹیں شائع ہوئی تھیں کہ جولیان اسانج کو ایسے طبی مسائل کا سامنا ہے، جو ممکنہ طور پر جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں برطانوی اخبارات نے جولیان اسانج کے دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی کی arrhythmia کہلانے والی طبی حالت، پھیپھڑوں میں مستقل شکایت اور خطرناک حد تک زیادہ بلڈ پریشر کا ذکر کیا تھا۔
اسانج کے آج کے اعلان کے بعد وکی لیکس کی طرف سے اس ادارے کے ایک ترجمان ہرافنسن کی طرف سے کہا گیا کہ ایکواڈور کے سفارتخانے سے ’جلد رخصتی‘ سے اسانج کی مراد یہ ہے کہ ’جیسے ہی برطانوی حکومت نے اپنا وعدہ پورا کیا، اسانج لندن میں ایکواڈور کا سفارتخانہ چھوڑ دیں گے‘۔ سفارتخانے میں پریس کانفرنس کے دوران جولیان اسانج کے ہمراہ ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پاٹینو بھی موجود تھے۔ انہوں نے اپنے بیان میں اس بارے میں تو کچھ نہ کہا کہ اسانج عنقریب ہی سفارتخانہ چھوڑ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم پاٹینو نے یہ ضرور کہا کہ اس ’معاملے میں جتنی بھی حکومتیں ملوث ہیں، انہیں اپنے اپنے طور پر اقدامات کرنے چاہییں‘۔
اس موقع پر ایکواڈور کے وزیر خارجہ نے مزید کہا، ’’یہ صورت حال اب کسی بھی طور ختم ہونی چاہیے۔ دو سال واقعی بہت لمبا عرصہ ہے۔‘‘ ریکارڈو پاٹینو نے صحافیوں کو بتایا، ’’ہم اپنی طرف سے انہیں (اسانج کو) مسلسل تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ ہم برطانوی اور سویڈش حکومتوں کے ساتھ مذاکرات پر بھی مسلسل تیار ہیں تاکہ جولیان اسانج کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں سے متعلق مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکے۔‘‘
جولیان اسانج نے جون 2012ء میں لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں جا کر وہاں پناہ لے لی تھی۔ ان کے اس اقدام کا مقصد اپنے برطانیہ سے ملک بدر کر کے سویڈن بھیجے جانے کا قبل از وقت تدارک تھا۔ سویڈن میں اسانج کو اپنے خلاف ریپ اور جنسی حوالے سے ہراساں کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ وہ اپنے خلاف ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
وکی لیکس کے بانی کو خدشہ ہے کہ ان کی برطانیہ سے سویڈن ملک بدری اس لیے محض ایک بہانہ ہے کہ سویڈن سے انہیں ملک بدر کر کے امریکا پہنچا دیا جائے گا، جہاں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ امریکا میں ان کے خلاف اس مقدمے کی وجہ وہ لاتعداد خفیہ امریکی فوجی اور سفارتی دستاویزات ہوں گی، جو ولی لیکس نے شائع کر دی تھیں۔
اسانج برطانیہ سے اپنی ممکنہ ملک بدری کے خلاف ہر طرح کی قانونی کوششیں کر چکے ہیں جن میں وہ ناکام رہے تھے اور اسی لیے وہ آخرکار لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
انہوں نے اتوار 16 اگست کو برطانوی اخبار ’میل آن سنڈے‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایکواڈور کے سفارتخانے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس انٹرویو میں اسانج نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنی موجودہ زندگی میں وہ خود کو کبھی اکیلا محسوس کرتے ہیں اور کبھی پرسکون۔
اسی انٹرویو میں اسانج نے ’میل آن سنڈے‘ کو بتایا تھا، ‘‘میرا ضدی پن، یہ میری بہترین خاصیت بھی ہے اور سب سے بڑی خامی بھی۔ میں ہار نہیں مانوں گا۔‘‘