ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب احمد شیخ گرفتار
27 مئی 2015نیوز ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ ان چھاپوں کے دوران ہزاروں کی تعداد میں جعلی ڈگریاں بھی، جن میں مختلف کوائف کی جگہ خالی تھی، ضبط کر لی گئیں۔ بتایا گیا ہے کہ اِن خالی ڈگریوں کی جگہ کی نشاندہی خود شعیب احمد شیخ نے کی۔
مجسٹریٹ جاوید ملک نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ نئے چھاپوں کے دوران تحویل میں لی جانے ولی ڈگریاں پرنٹ ہونے کے لیے تیار تھیں۔ ان چھاپوں کے دوران حکام نے طالب علموں کے جعلی شناختی کارڈ بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔
اے ایف پی نے بتایا ہے کہ شعیب احمد شیخ اس وقت وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کی تحویل میں ہے اور اُسے آج بدھ کے روز عدالت میں پیش کیا جائے گا، جہاں اُس پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی جائے گی۔ ایف آئی اے کے ایک سینیئر عہدیدار شاہد حیات نے بتایا:’’اب ہمارے پاس اس کمپنی کے خلاف کافی شواہد جمع ہو گئے ہیں اور اِنہی کے پیشِ نظر اب ہم باقاعدہ کیس درج کروانے کی جانب پیش رفت کریں گے۔‘‘
ایف آئی اے کے دو دیگر افسران نے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ شعیب اور کمپنی کے چھ دیگر ڈائریکٹرز پر پاکستان کے اُن قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے، جن کا تعلق فراڈ، دھوکہ دہی، منی لانڈرنگ اور غیر قانونی طریقے سے پیسے کی الیکٹرانک منتقلی سے ہے۔
ایگزیکٹ نامی اس کمپنی کے خلاف تحقیقات کا آغاز امریکی جریدے ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی اُس رپورٹ کے بعد کیا گیا، جس میں اس کمپنی پر جعلی ناموں سے سینکڑوں یونیورسٹیوں کی وَیب سائٹس کا ایک نیٹ ورک چلانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس طریقے سے یہ کمپنی سالانہ کروڑوں ڈالر کما رہی تھی۔ اسلام آباد حکومت نے اس کمپنی کے خلاف تحقیقات کے سلسلے میں بین الاقوامی پولیس انٹرپول سے بھی تعاون کی درخواست کی ہے۔
’نیویارک ٹائمز‘ کی اس رپورٹ میں ایگزیکٹ کے سابقہ ملازمین کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اسی طرح اس رپورٹ کی تیاری کے دوران جعلی یونیورسٹیوں کی 370 سے زائد وَیب سائٹس کی بھی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں امریکا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے ایسے کئی گاہکوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا، جن میں سے کئی نے جعلی ڈگریوں کے حصول کے لیے ہزاروں جبکہ دیگر نے لاکھوں ڈالر ادا کیے تھے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ کمپنی جعلی یونیورسٹیوں کی یہ وَیب سائٹس قبرص اور لیٹویا میں رجسٹرڈ سرورز کے ذریعے چلا رہی تھی۔ اس کے ملازمین سی این این آئی رپورٹ پر ان یونیورسٹیوں کے بارے میں فرضی رپورٹیں بھی بھیجا کرتے تھے۔
ایگزیکٹ نے ’بول‘ کے نام سے ایک نیا ٹی وی نیوز چینل بھی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے لیے پاکستان کے چوٹی کے صحافیوں اور اینکرز کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سے متعدد صحافی اور اینکرز ’بول‘ سے الگ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔