1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم مہاجرین کے خلاف پوسٹر، تصویر جو ’گلے کی ہڈی‘ بن گئی

27 اپریل 2019

جرمنی کی اسلام اور مہاجرین کی مخالفت کرنے والی دائیں باز وکی عوامیت پسند سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کی شہری ریاست برلن کی شاخ کا تیار کردہ ایک انتخابی پوسٹر اس پارٹی کے لیے ’گلے کی ہڈی‘ بن گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3HYxb
تصویر: Getty Images/S. Gallup

اس پوسٹر میں ایک امریکی عجائب گھر کی ملکیت ایک ایسی تصویر کو استعمال کیا گیا ہے، جس کے لیے ’الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ یا AfD نے امریکا کے کلارک آرٹ انسٹیٹیوٹ کی رضا مندی حاصل نہیں کی تھی۔ مزید یہ کہ اس امریکی میوزیم کی ملکیت یہ تصویر اس انتخابی بل بورڈ میں اس طرح استعمال کی گئی ہے، کہ اس کے ذریعے واضح طور پر تارکین وطن، خاص طور پر عرب مسلم تارکین وطن کے خلاف عوامی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

Augsburg - Alternative für Deutschland Logo mit Schattenriss von Frauke Petry
تصویر: Imago/reportandum

’یوریبیہ‘: دانستہ اشتعال انگیزی

 اے ایف ڈی کی برلن شاخ نے اپنا یہ پوسٹر مئی میں ہونے والے اگلے یورپی پارلیمانی الیکشن کے لیے اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں تیار کروایا ہے۔ ساتھ ہی اس پوسٹر پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس میں استعمال کی گئی تصویر ’متبادل برائے جرمنی‘ کی اس سیریز کا ایک حصہ ہے، جسے سیاسی طور پر دیا جانے والا نام ’یورپی تاریخ سے سبق سیکھیے‘ ہے۔

لیکن اس سے بھی زیادہ قابل اعتراض بات اس پوسٹر پر تصویر کے اوپر اور نیچے جلی حروف میں لکھی گئی یہ عبارت ہے: ’’اس لیے کہ یورپ بدل کر کوئی یوریبیہ نہ بن جائے۔ یورپیوں کو اے ایف ڈی کا انتخاب کرنا چاہیے۔‘‘ اس عبارت میں استعمال کیے گئے لفظ ’یوریبیہ‘ (Eurabien) کی خاص بات یہ ہے کہ جرمن زبان میں ایسا کوئی لفظ موجود ہی نہیں اور یہ اختراع خاص طور پر ایک ایسے سیاسی نعرے کے لیے کی گئی ہے، جس کا مطلب ’عرب یورپ‘ بنتا ہے، کیونکہ ’یوریبیہ‘ دو الفاظ ’یورپ‘ اور ’عریبیہ‘ کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔

جرمنی میں اسلام اور تارکین وطن، خاص کر پناہ کے متلاشی مسلمانوں کی آمد کی مخالفت کرنے والے جماعت اے ایف ڈی کے یورپی پارلیمانی انتخابات کے لیے اس پوسٹر کا سب سے اشتعال انگیز پہلو اس میں استعمال کی گئی کلارک آرٹ انسٹیٹیوٹ کی ملکیت ایک پینٹنگ ہے۔

اس پینٹنگ میں ایک نوجوان یورپی خاتون کھڑی نظر آتی ہے، جس کے جسم کا بالائی حصہ بے لباس ہے۔ یہ خاتون بظاہر عرب لباس، پگڑیاں اور ٹوپیاں پہنے ہوئے لیکن گہری رنگت والے چند ایسے مردوں کے درمیان موجود ہے، جن میں سے ایک ممکنہ عرب خریدار اس خاتون کو بطور غلام خریدنے سے قبل اس کے منہ میں انگلیاں ڈال کر اس کے دانتوں کا معائنہ کر رہا ہے۔

امریکی میوزیم کی طرف سے اے ایف ڈی کی شدید مذمت

یہ پینٹنگ، جس کی نقل کو تھوڑا سا کاٹ کر الیکشن پوسٹر پر چھاپا گیا ہے، سن 1866ء میں فرانسیسی مصور ژاں لیوں جیروم نے بنائی تھی اور انہوں نے اسے  The Slave Market یا ’غلاموں کی منڈی‘ کا عنوان دیا تھا۔

امریکا کے کلارک آرٹ انسٹیٹیوٹ کو جب ٹوئٹر کے ذریعے جرمنی میں اے ایف ڈی کی برلن شاخ کے اس پوسٹر کی بارے میں اطلاع ملی، تو میوزیم کے ڈائریکٹر اولیویئر مَیسلے نے فوری طور پر اس کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کر دیا۔

اولیویئر مَیسلے  نے کہا، ’’ہم اے ایف ڈی کی طرف سے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اس پینٹنگ کے یوں انتہائی نامناسب استعمال کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ہم نے اس پارٹی کو یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں اس پینٹنگ کا استعمال فوری طور پر بند کر دے اور آئندہ کے لیے اس سے احتراز کرے۔‘‘

مَیسلے نے تاہم یہ اعتراف بھی کیا کہ چونکہ اس پینٹنگ پر کاپی رائٹس قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، اس لیے وہ اے ایف ڈی پر اسے استعمال نہ کر نے کے لیے کوئی قانونی دباؤ نہیں ڈال سکتے۔

یورپی تاریخ سے حاصل کیے جانے والے سبق

اے ایف ڈی نے اپنے انتخابی پوسٹرز کی جس سیریز کے لیے یہ اور ایسی دیگر پینٹنگز منتخب کی ہیں، اس سیریز کو نام دیا گیا ہے: ’’یورپ کی تاریخ سے سبق سیکھیے۔‘‘ ان پینٹنگز میں پیٹر برُوگھل اور جوزیپے آرکِمبولڈو جیسے مشہور فنکاروں کی تاریخی تخلیقات بھی شامل ہیں، جن سب کو اے ایف ڈی نے اشتعال انگیز عبارات اور نعروں کے ساتھ تارکین وطن، ماحول پسندوں اور یورپی یونین کے خلاف تنقیدی پوسٹرز کی تیاری کے لیے استعمال کیا ہے۔

م م / ع ح / اے ایف پی، کے این اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں