بابری مسجد فیصلے کی رکاوٹ دور، فیصلہ جمعرات کو متوقع
28 ستمبر 2010ایودھیا میں قائم بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے 1992ء میں مسمار کردیا گیا تھا۔ جس کے بعد پھوٹنے والے ہندومسلم فسادات میں دوہزارکے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے،جن میں زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ان فسادات کو1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد سے اب تک کے بدترین فسادات میں شمار کیا جاتا ہے۔
ہندوؤں کے مطابق مغل بادشاہ بابر کی طرف سے سولہویں صدی میں بابری مسجد کو ایک مندر کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا جوکہ ایک بھگوان 'رام' کی جائے پیدائش تھی۔ اس وجہ سے ہندو اس جگہ پر رام مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چونکہ اس جگہ پر مسجد موجود تھی لہذا یہ مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ 1992ء میں بابری مسجد مسمار کئے جانے کے بعد سے یہ جگہ حکومتی تحویل میں ہے اور یہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
بھارتی حکومت کو تشویش ہے کہ مسمار شدہ مسجد کی زمین کی ملکیت کے حوالے سے ہائی کورٹ کا فیصلہ ملک میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کرسکتا ہے۔ بھارتی حکومت کے لئے یہ پریشانی مزید دوچند اس لئے ہوگئی ہے کہ یہ فیصلہ اتوار تین اکتوبر کو شروع ہونے والے کامن ویلتھ گیمز کے آغاز سے محض تین دن قبل سنایا جانا ہے۔
بھارتی منتظمین ان کھیلوں کے حوالے سے پہلے ہی ملکی اور غیر ملکی دباؤ میں ہے۔ کیونکہ شرکت کرنے والے ممالک اور کامن ویلتھ گیمز فیڈریشن کی جانب سے سکیورٹی کے علاوہ کھلاڑیوں کے لئے فراہم کی جانے والی سہولیات پر شدید تحفظات اور تنقید کی گئی تھی۔ انہی تحفظات کی بنا پر نئی دہلی کامن ویلتھ گیمز کا انعقاد پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ماؤ نوازوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور کشمیر میں علیحدگی کی زور پکڑتی تحریک کے ساتھ ساتھ ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد سے متعلق فیصلہ سال رواں کے دوران بھارت کے لئے سکیورٹی کے حوالے سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہوگا۔
اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں ہائی کورٹ کے ایک اہلکار میں میڈیا کو بتایا کہ اس کیس کا فیصلہ جمعرات 30 ستمبر دوپہر ساڑھے تین بجے سنایا جائے گا۔
23 ستمبر کو سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک ہفتے کے لئے ملتوی کرنے کا حکم دیا تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ 24 ستمبر کو آنا تھا۔ ایک سابق بھارتی افسر رمیش چند کی طرف سے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ اس کیس پر فیصلے کو ملتوی کرنے کا حکم جاری کیا جائے تاکہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لئے دونوں فریقین کو وقت مل سکے۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : عدنان اسحاق