بابری مسجد پر فیصلے کے بعد کا پہلا چھ دسمبر
6 دسمبر 2019اس واقعے کو آج 27 برس مکمل ہوگئے اور ہر برس کی طرح آج بھی چھ دسمبر کے واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور مسجد کی بازیابی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں بابری مسجد کے متعلق کئی پروگرام بھی ہو رہے ہیں، جن میں ماہرین بابری مسجد پر عدالتی فیصلوں کا تجزیہ بھی کر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں بھی اس کے حوالے سے کافی کچھ لکھا گيا ہے۔
ادھر ایودھیا میں بابری مسجد کی برسی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے اضافی دستے تعینات کیےگئے ہیں۔
بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کو دی جائے، بھارتی سپریم کورٹ
حکام نے جنوبی شہر حیدرآباد میں دفعہ 144 کے تحت جمعرات کی شام سے جمعے تک امتناعی احکامات نافذ کر دیے اور تمام طرح کے پروگرام و ریلیوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس طرح کی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ چھ دسمبر کے روز امن و امان خراب کرنے کی غرض سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے بعض شدپسند عناصر حرکت میں ہیں اس لیے یہ احتیاطی تدبیر کی گئی ہیں۔
بابری مسجد بھارت کی شمالی ریاست اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے ایودھیا میں تھی، جو نوابوں کے شہر لکھنؤ کے پاس ہی واقع ہے۔ مسجد کے حوالے سے تمام کاوشوں کے باوجود مسلمانوں کو اس میں ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے اور حکومتی وعدوں کے باوجود وہ مایوس ہوئے ہیں۔
ایک طویل عدالتی جد و جہد کے بعد گزشتہ ماہ نو تاریخ کو بھارتی سپریم کورٹ نے اس پر اپنا متضاد فیصلہ سنایا اور بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی بتا کر اراضی کی ملکیت اسی ہندو فریق کو سونپ کر، جو مسجد کی مسماری کی ذمہ دار تھی۔ اس فیصلے نے بھارتی مسلمانوں کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک سرکردہ رکن قاسم رسول الیاس، جو کئی برس سے مسجد کی بازیابی کی مہم سے وابستہ رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ عدالت عظمی کے اس فیصلے سے تمام مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں انھوں نے کہا، ’’میرے خیال سے ہماری سپریم کورٹ اس معاملے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ تضادات سے پُر ہے جس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل تیار کی جا چکی ہے اور اسے آئندہ دو تین روز میں ہی دائر کر دیاجائےگا۔
قاسم رسول الیاس نے مزید کہا، ’’عدالت نے اپنے فیصلے میں مسلمانوں کے ٹائٹل کو محفوظ بتایا ہے۔ فیصلے میں کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی۔ عدالت نے سنہ 1549 میں مسجد کی تعمیر کو درست قرار دیا اور 1837 سے 1949 تک مسجد میں نماز کی ادائیگی کو بھی تسلیم کیا ہے۔ عدالت نے مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے کو بھی مجرمانہ فعل قرار دیا ہے۔ فیصلے میں مسجد کی شہادت کو غیر آئینی اور مجرمانہ فعل بتایا ہے، تو پھر مسجد کی زمین کو اس فریق کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں جو مسجد کے انہدام کی ذمہ دار ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ عدالت نے مسجد کے انہدام کو مجرمانہ فعل قرار دیا ہے اس لیے اب حکومت پر لازم ہے کہ اس کے ملزمان کے خلاف جو مقدمے چل رہے ہیں اس کی تحقیقات جلد مکمل کی جائیں، تاکہ قصورواروں کو اس کی سزا مل سکے۔
مولانا ابولکلام آزاد یونیورسٹی راجستھان کے وائس چانسلر پروفیسر اختر واسع کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کے مقدمے میں عدالت عظمی کا فیصلہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں پروفیسر واسع نے کہا، ’’فیصلہ توقعات اور امیدیں سے تو برعکس ہے۔ بحثیت قوم مسلمانوں کو اس فیصلے سے مایوسی ہوئی لیکن عدالت عظمی کا فیصلہ ہے تو اسے ماننا تو پڑے گا ہی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ چھ دسمبر کے روز اب مسلمانوں کو ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہیے جس سے فرقہ پرستی کو ہوا ملے اور یہ ڈر یا بزدلی کے سبب نہیں بلکہ حکمت عملی کے اعتبار سے ضروری ہے۔
1992ء میں مسجد کے انہدام کے فوری بعد اس وقت کی حکومت نے اسی مقام پر مسجد کی دوبارہ تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ اس واقعے کے فوری بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن میں تقریبا دو ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ پہلا چھ دسمبر ہے۔ اب تک مسلمان چھ دسمبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے رہے ہیں اور مسجد کی تعمیر پر زور دیا جاتا رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے مسلم تنظیموں کی جانب سے مختلف طرح کے رد عمل سامنے آتے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم قیادت شدید اختلافات سے دوچار ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ نظر ثانی کی اپیل کے علاوہ ان کی مستبقل کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ بھارت میں بابری مسجد ہی کی طرح سینکڑوں ایسی تاریخی مساجد ہیں جن پر ہندو تنظیموں کا دعوی ہے۔ کہیں ان میں تالا پڑا ہے تو کسی پر کیس چل رہا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔