’بات حد سے گزر چکی ہے، ایردوآن کا جرمنی آنا قبول نہیں‘
21 مارچ 2017فولکر بُوفیر نے، جو چانسلر انگیلا میرکل کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں، کہا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے میرکل حکومت کا نازی دورِ کے ساتھ تقابل کر کے ایک سرخ لائن کوعبور کر لیا ہے اور اب اُن کی جرمنی آمد کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ جرمن سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے فولکر بُوفیر جرمن صوبے ہیسے کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔
کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے نائب چیئرمین نے واضح طور پر ترک سربراہِ مملکت کے اُن بیانات کی مذمت کی، جن میں انہوں نے یورپی ممالک کی جانب سے ترک ریفرنڈم کے لیے جلسے جلوسوں کی ممانعت کو نازی دورِ حکومت کے ہتھکنڈوں کے مساوی قرار دیا تھا۔ جرمن صوبے ہیسے کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بہت کچھ کہا اور سن جا چکا ہے، لہٰذا مسٹر ایردوآن اور اُن کی حکومت کو جرمنی میں کسی طور پر خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔
جرمن سیاستدان نے واضح انداز میں کہا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اُسے ایردوآن اور اُن کی حکومت کو سمجھ لینا چاہیے۔ ایک اور جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے وزیر اعلیٰ رائنر ہیسیلوف نے بھی ترک حکومت کے اہلکاروں کی جرمنی آمد پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیسیلوف نے بھی ترک صدر کے بیانات کی مذمت کی ہے۔
جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدر ایردوآن ایسی پلاننگ کر رہے ہیں کہ وہ مارچ میں جرمنی پہنچ کر یہاں آباد ہونے والے ترک لوگوں کی ایک ریلی کی قیادت کریں تاکہ وہ ریفرنڈم میں اُن کی سیاسی جماعت کی متعارف کردہ دستوری ترامیم کے حق میں ووٹ ڈال سکیں۔ ترک صدر اِن اصلاحات کے لیے عوام کی بھاری تائید کے متمنی ہیں۔ دستوری ریفرنڈم کی کامیابی کے بعد ترکی میں حکومت کے ایگزیکٹو اختیارات وزیراعظم سے صدر کو منتقل ہو جائیں گے۔
جرمن سیاستدان نے اس مناسبت سے مزید کہا کہ اُن کی آمد سے سکیورٹی مسائل پیدا ہوں گے اور ویسے بھی جو شخص اُن کی توہین کا مرتکب ہوا ہو، وہ ایسا مت سوچے کہ اُس کی حفاظت پر ہزاروں پولیس اہلکاروں کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ جرمن حکومت نے واضح کیا ہے کہ ایردوآن نے جرمنی آمد کے حوالے سے مطلع نہیں کیا ہے۔
جرمن چانسلر نے بھی ایک روز قبل انقرہ حکومت سے کہا ہے کہ وہ اُن کی حکومت کے نازی دور سے موازنے کا سلسلہ بند کرے، وگرنہ اُن کی حکومت یہ حق رکھتی ہے کہ مستقبل میں ترک حکام کو جرمن قوانین کی پابندی کے تابع کر دیا جائے۔