1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بات حد سے گزر چکی ہے، ایردوآن کا جرمنی آنا قبول نہیں‘

عابد حسین
21 مارچ 2017

ترک آئینی ریفرنڈم کے حق میں جرمنی میں جلسوں پر پابندی کے بعد جرمنی اور ترکی کے درمیان سخت الفاظ کے تبادلے سے دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ ترکی میں دستوری ریفرنڈم کا انعقاد اگلے مہینے کی سولہ تاریخ کو ہوگا۔

https://p.dw.com/p/2ZchR
Duisburg Moschee DITIB
تصویر: Imago/Reichwein

فولکر بُوفیر نے، جو چانسلر انگیلا میرکل کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں، کہا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے میرکل حکومت کا نازی دورِ کے ساتھ تقابل کر کے ایک سرخ لائن کوعبور کر لیا ہے اور اب اُن کی جرمنی آمد کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ جرمن سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے فولکر بُوفیر جرمن صوبے ہیسے کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔

کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے نائب چیئرمین نے واضح طور پر ترک سربراہِ مملکت کے اُن بیانات کی مذمت کی، جن میں انہوں نے یورپی ممالک کی جانب سے ترک ریفرنڈم کے لیے جلسے جلوسوں کی ممانعت کو نازی دورِ حکومت کے ہتھکنڈوں کے مساوی قرار دیا تھا۔ جرمن صوبے ہیسے کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بہت کچھ کہا اور سن جا چکا ہے، لہٰذا مسٹر ایردوآن اور اُن کی حکومت کو جرمنی میں کسی طور پر خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔

جرمن سیاستدان نے واضح انداز میں کہا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اُسے ایردوآن اور اُن کی حکومت کو سمجھ لینا چاہیے۔ ایک اور جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے وزیر اعلیٰ رائنر ہیسیلوف نے بھی ترک حکومت کے اہلکاروں کی جرمنی آمد پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیسیلوف نے بھی ترک صدر کے بیانات کی مذمت کی ہے۔

Landesparteitag CDU in Darmstadt Volker Bouffier
فولکر بوفیر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے قریبی ساتھی اور اُن کی سیاسی جماعت کے سینیئر اراکین میں شمار ہوتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst

جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدر ایردوآن ایسی پلاننگ کر رہے ہیں کہ وہ مارچ میں جرمنی پہنچ کر یہاں آباد ہونے والے ترک لوگوں کی ایک ریلی کی قیادت کریں تاکہ وہ ریفرنڈم میں اُن کی سیاسی جماعت کی متعارف کردہ دستوری ترامیم کے حق میں ووٹ ڈال سکیں۔ ترک صدر اِن اصلاحات کے لیے عوام کی بھاری تائید کے متمنی ہیں۔ دستوری ریفرنڈم کی کامیابی کے بعد ترکی میں حکومت کے ایگزیکٹو اختیارات وزیراعظم سے صدر کو منتقل ہو جائیں گے۔

جرمن سیاستدان نے اس مناسبت سے مزید کہا کہ اُن کی آمد سے سکیورٹی مسائل پیدا ہوں گے اور ویسے بھی جو شخص اُن کی توہین کا مرتکب ہوا ہو، وہ ایسا مت سوچے کہ اُس کی حفاظت پر ہزاروں پولیس اہلکاروں کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ جرمن حکومت نے واضح کیا ہے کہ ایردوآن نے جرمنی آمد کے حوالے سے مطلع نہیں کیا ہے۔

جرمن چانسلر نے بھی ایک روز قبل انقرہ حکومت سے کہا ہے کہ وہ اُن کی حکومت کے نازی دور سے موازنے کا سلسلہ بند کرے، وگرنہ اُن کی حکومت یہ حق رکھتی ہے کہ مستقبل میں ترک حکام کو جرمن قوانین کی پابندی کے تابع کر دیا جائے۔