باسک علاقوں کی آزادی پسند تنظیم ایٹا زوال کا شکار
21 اپریل 2009اس تحریک کے بہت سے عسکریت پسند رہنما اس وقت مختلف جیلوں میں قید ہیں اور کئی دیگرتشدد کا استعمال ترک کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود اسپین سے آزادی ایک ایسا خواب ہے جو ابھی تک باسک علاقے میں سیاست کا اہم ترین حصہ ہے۔
ماضی قریب میں ایٹا اپنے موقف کے پرزوراظہار کے لئے مسلح حملوں کی دھمکیاں تو دیتی رہی مگر اپنے بم حملے جاری رکھنے میں ناکام رہی۔ پھراس تحریک کے عسکری بازو کے سربراہ Jurdan Martitegi کی حالیہ گرفتاری سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اب ایٹا اپنی مرکزی قیادت کو زیادہ عرصے تک محفوظ نہیں رکھ سکے گی۔
ہسپانوی حکومت اور باسک علیحدگی پسند حلقوں سے قربت رکھنے والے صحافیوں کے مطابق مسلسل گرفتاریوں اور سیاسی ناکامیوں نے باسک علیحدگی پسندوں کی صفوں میں اس سوال کو جنم دیا ہے کہ آیا انہیں آزادی کے لئے اپنی گوریلا جنگ ختم کردینا چاہیئے؟
فلورینچو ڈومِنگیس نامی تجزیہ نگار کہتے ہیں : ’’تشدد کی روک تھام کے لئے کوئی دوسرا عمل اتنا موثرثابت نہیں ہوا جتنا کہ خونریز حملوں کے تسلسل کو توڑنا اورایٹا کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کرلینا۔‘‘
ایٹا کے حامیوں کو باسک علاقے میں مارچ میں ہونے والے مقامی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا مگر انتخابی عمل کے تجزیئے اور ضائع کردیئے جانے والے ووٹوں کی گنتی سے پتہ یہ چلا کہ باسک علاقے میں ایٹا کی مقبولیت قریب دس فیصد کمی ہوچکی ہے جبکہ اس تحریک کی مخالف Aralar پارٹی، جو پرامن تحریک آزادی پر یقین رکھتی ہے، کی مقبولیت میں چھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
Navarra یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسرکارلوس باریرا کہتے ہیں کہ باسک علاقے میں دراصل علیحدگی پسندوں کی حمائت کم نہیں ہوئی بلکہ تشدد کی حمائت میں کمی آئی ہے۔
اسپین کے باسک علاقے عوامی سیاسی رجحانات کے ایک حالیہ جائزے سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ باسک نسل کے ہسپانوی باشندوں میں سے کم ازکم 30 فیصد آزادی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جبکہ 31 فیصد کسی حد تک اس کے حق میں ہیں۔ اس کے برعکس اسی علاقے میں 25 فیصد شہری ایسے ہیں جو اس خطے کی ممکنہ آزادی کے خلاف ہیں۔
رپورٹ : میرا جمال
ادارت : مقبول ملک