بالی بم دھماکوں کے مجرمان کی سزائے موت میں تاخیر
6 نومبر 2008ان کا کہنا ہے کہ اس طرح عسکریت پسندوں کو جہادیوں کے طور پر اپنا تشخص قائم رکھنے کا موقع مل رہا ہے جبکہ انتہاپسند گروہ اور بھی مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔
بالی بم دھماکوں کے ملزمان امروزی، مخلص اور امام سمودرا پر 2002 میں انڈونیشیا میں سیاحت کے مرکز بالی میں بم دھماکے کر کے 202 افراد کو ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہوگیا تھا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد میں تاخیر سے حکومت ان انتہاپسندوں کے حامیوں کی جانب سے پرتشدد مظاہروں سے بچنا چاہتی ہے۔ تاہم ایسا کرنے سے انڈونیشی حکام خود انتہاپسندوں کو یہ موقع دے رہے ہیں ہیں کہ وہ سزائے موت کا انتظٓار کرنے والے اپنے ان ساتھیوں کو ہیرو بنا لیں۔
یونیورسٹی آف انڈونیشیا کے سیاسی تجزیہ نگار بانتارتو باندورو کہتے ہیں کہ انتہا پسندوں کے لیے اپنا تشخص بہتر بنانے کا یہی موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے عناصر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح جیل حکام کی بدعنوانیاں اور کمزوریاں بھی کھل کر سامنے آئی ہیں جنہوں نے مجرموں کو اپنے مقاصد کے لئے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا۔
سنگاپور میں انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے تجزیہ نگار جان ہیریسن کا کہنا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد میں تاخیر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انڈونیشی حکومت نے بالی بم دھماکوں کے حوالے سے تمام قانونی مراحل طے کیے ہیں۔
انڈونیشیا میں حکام نے رمضان کے مہینے سے قبل بالی میں دہشت گردانہ حملوں کے ذمے دار مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا توتھا تاہم پھر اس مقصد کے لیے نومبر کے اوائل کا تعین کا کیا گیا تھا۔
ان مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد کی صورت میں انڈونیشیا کے صدر اور غیرملکی سفارت خانوں پر حملوں کی دھمکیاں دی گئی ہیں جن کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی سخت کی جاچکی ہے جبکہ مجرمان کے حامیوں کی جانب سے سزا پر عمل درآمد کے خلاف وقفے وقفے سے مظٓاہرے بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔