بالی وڈ میں گونجتی پاکستانی دھنیں
3 جولائی 2022ابرارالحق اپنے گیت کو بغیر اجازت استعمال کرنے پر قانونی کارروائی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ابرارالحق کی قانونی کارروائی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس سے ایک چیز ضرور واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی گلوکار اور ان کے گیت آج بھی بالی وڈ کی ضرورت ہیں جو کبھی انہیں انسپائر کرتے ہیں تو کبھی وہ ہوبہو کاپی کر لیتے ہیں۔
بولتی فلموں کے دور کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ لاہور میں بننے والے فلم خزانچی (1941) کی موسیقی نے تہلکہ مچا دیا۔ اس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے، جنہوں نے ہندوستان کے شاستریہ سنگیت اور پنجاب کی لوک موسیقی کی آمیزش سے دریا جیسی رواں دھنیں تخلیق کیں جن کی رو میں عام سامعین سے لے کر بمبئی کے نامور موسیقار تک بہہ گئے۔
اس وقت بمبئی میں موسیقی سے وابستہ سب سے بڑے نام آر سی بورال، پنکھج ملک اور انل بسواس تھے۔ بنگالی ہونے کے ناطے تینوں موسیقار رابندر سنگیت سے از حد متاثر تھے اور ان کی دھنیں ایک مخصوص دائرے میں قید ہو کر رہ گئی تھیں۔ ماسٹر غلام حیدر نے ان کے لیے ایک اور دیومالائی دنیا کے دروزے کھول دیے۔ راجو بھارتن کی کتاب اے جرنی ڈاؤن میلوڈی لائن میں انل بسواس کا اعتراف ان کے اپنے ہی الفاظ میں کچھ یوں ہے،ہ "یہ ایک مدھر دھارا تھی جسے (سن کر) مجھے لگا کہ میں تو ایک مینڈک کی طرح کنویں میں قید ہوں۔ فطری طور پر مجھے احساس ہوا کہ اگر اپنے ذہن کی کھڑکیاں نہیں کھولوں گا تو ایک بہت محدود موسیقار بن کر رہ جاؤں گا۔ غلام حیدر کے وسیلے سے میں نے اپنے ذہن کا افق وسیع کیا۔"
ماسٹر غلام حیدر کے انقلابی قدم سے محض انل بسواس ہی نہیں بمبئی کے کم و بیش تمام موسیقاروں کا ذہنی افق وسیع ہوا۔ موسیقار اعظم کے نام سے مشہور نوشاد علی کی پہلی کامیاب فلم رتن (1944) میں ایسے ہی شاستریہ سنگیت اور فوک دھنوں کا سنگھم ملتا ہے جو ایک فنکار کی دوسرے فنکار سے انسپائر ہونے کی بہترین مثال ہے۔
خزانچی کے نام سے ہی بمبئی میں ایک فلم 1958ء میں بنی جس کے موسیقار مدن موہن اپنے مخصوص انداز سے ہٹ کر آبشار جیسی رواں دھنیں تخلیق کرتے نظر آتے ہیں۔ لاہور سے بمبئی جانے والے او پی نیر نے پنجابی انگ کی موسیقی سے پچاس کی دہائی میں تہلکہ مچا دیا۔ انہوں نے شمشاد بیگم کی آواز استعمال کی جو ماسٹر غلام حیدر کی مرکزی پلے بیک سنگر تھیں۔
پاکستانی فنکاروں سے متاثر ہونے کا یہ سلسلہ محض دھنوں تک محدود نہ تھا بلکہ کئی بار خوبصورت مصرعے بھی فلم سازوں کے دلوں میں گھر کر گئے اور وہ ہر قیمت پر انہیں استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اس کی ایک مثال مجروح سلطانپوری کا وہ گیت ہے جو انہوں نے فلم چراغ (1969) کے لیے لکھا۔ ہدایت کار راج کھوسلہ فیض کے مصرعے "تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے" سے بے پناہ متاثر تھے اور اسے اپنی فلم کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ مجروح نے پہلے فیض صاحب کو خط لکھ کر اجازت لی اور پھر گیت لکھا جسے رفیع اور لتا نے اپنی آوازوں سے امر کر دیا۔
اوپر دی گئی چند مثالیں فنکاروں کے "تخلیقی مکالمے" کا انتہائی خوبصورت اظہار ہیں جن میں خطوں اور یہاں تک کہ ثقافتوں کی تفریق بھی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ جہلم کے گلزار نے ممبئی میں بیٹھ کر "دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن" سے غالب اور "زحال مسکیں مکن برنجش" سے امیر خسرو کو ہمارا معاصر بنا دیا۔ بنگال کے سلل چودھری نے موزارٹ کی چالیسویں سمفنی کو ہندوستانی رنگ میں یوں پیش کیا کہ گمان گزرتا ہے "اتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا" مقامی ثقافت سے پھوٹتی بھیرویں ہے۔ یہ بعد کے زمانے کے ایک فنکار کا اپنے دیوتا کو شاندار خراج تحسین ہے۔
مگر افسوس کہ بات تخلیقی مکالمے تک محدود نہیں رہی بلکہ بالی وڈ نے بارہا پاکستانی گیت بغیر اجازت دھڑلے سے اپنی فلموں میں استعمال کیے۔ اس فہرست میں اگر راج کپور کا نام بھی شامل ہو تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ 1973ء میں انہوں نے ریشماں کے گیت "اکھیاں نوں رہن دے اکھیاں دے کول کول" کو انتہائی غیر جمالیاتی انداز میں بوبی کا حصہ بنا ڈالا۔ دوسری طرف سبھاش گھئی نے ریشماں کے ٹریڈ مارک لمبی جدائی کو نہ صرف ان کی آواز میں ریکارڈ کیا بلکہ ہیرو (1983) میں ان کے نام کے ساتھ پیش کیا اور بھرپور عزت افزائی کی۔
نوے کی دہائی میں نصرت فتح علی خان کی مقبولیت نے بالی وڈ میں نئے ریکارڈ قائم کیے۔ یہاں بھی چربے اور تخلیقی سطح پر متاثر ہونے کے دونوں رویے ملتے ہیں۔ فلم میوزک کو نئے ذائقے سے آشنا کروانے والے عالمی شہرت یافتہ موسیقار اے آر رحمان نے شہنشاہ قوالی سے متاثر ہونے کے بارے میں ایک انٹرویو میں بتایا میں کہ جن دنوں میں روجا کی موسیقی ترتیب دے رہا تھا تب نصرت فتح علی خان کو سنا اور سوچا "میں اس طرح کا میوزک کیوں نہیں ترتیب دے سکتا یا ان کی طرح کیوں نہیں گا سکتا؟" انہوں نے وجو شاہ اور انو ملک کی طرح نصرت کی دھنوں کا بھونڈا چربہ کرنے کے بجائے قوالی کی روایت کو جذب کیا اور بعد میں "نور علی نور، عشق بنا کیا جینا یاروں اور کن فیکون"جیسے شاہکار ترتیب دیے۔ یہ ہے وہ رویہ جس کے فروغ کی بالی وڈ میں اشد ضرورت ہے۔
بھارت میں ایک سے ایک بڑھ کر گلوکار موجود ہے لیکن راحت فتح علی خان، عاطف اسلم اور شفقت امانت علی کی آواز مسلسل ممبئی کی فضاؤں میں مدھرتا بکھیر رہی ہے جس کا مطلب ہوا پاکستانی فنکاروں کی اب بھی بالی وڈ میں پسند کیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان وسیع ہوتی سیاسی خلیج کے پس منظر میں فنکاروں کے درمیان تخلیقی مکالمے کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے گزشتہ پندرہ بیس برس سے سرقے اور تخلیقی سطح پر مکالمے کے درمیان توازن بری طرح بگڑ رہا ہے۔
بالی وڈ ایک بڑی فلم انڈسٹری ہے جس نے مختلف خطوں سے آنے والے فنکاروں اور ثقافتی رنگوں کے لیے ہمیشہ اپنے بازو کشادہ رکھے۔ کسی کی دھن یا بول وغیرہ ہوبہو اٹھا کر اپنی فلم میں شامل کر لینا نہ صرف کاپی رائٹس کی خلاف ورزی ہے بلکہ اسے فن کی بھی توہین کہا جا سکتا ہے۔