1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بامیان کی تاریخی غاریں، بے گھر افغانوں کی جائے پناہ

افسر اعوان28 جولائی 2015

بھورے رنگ کی چٹانوں میں انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی غاریں بامیان میں بدھا کے ان ناپید مجسموں کے قریب ہی واقع ہیں جنہیں طالبان نے تباہ کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1G5er
تصویر: DW/N. Behzad

یہ غاریں اب غربت کے شکار اور بامیان کے ایسے بے گھر لوگوں کے لیے جائے پناہ بنی ہوئی ہیں جن کے پاس سر چھپانے کو کوئی اور جگہ نہیں ہے۔

افغانستان کے وسطی علاقے میں موجود بامیان وادی میں بنائی گئی یہ غاریں دراصل بدھ مت کے پیروکار مذہبی عبادات، مراقبوں اور دنیا سے الگ تھلگ ہو کر زندگی گزارنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم اب یہ غاریں ایسے افغان گھرانوں کا ٹھکانہ ہیں جو روایتی گھر بنانے یا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

ان غاروں میں نہ تو بجلی موجود ہے اور نہ ہی پانی دستیاب ہے، مگر غریب افغان ان سیلن زدہ، تاریک اور بوسیدہ غاروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ 30 برسوں سے اپنی بیوی اور تین بچوں سمیت ایک چٹان میں بنائی گئی ایسی ہی ایک غار میں رہائش پذیر حاجی حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ اچھی جگہ نہیں ہے۔ یہ رہائش کے لیے کبھی بھی اچھی جگہ نہیں رہی۔‘‘ بدھا کے تباہ شدہ مجسموں والی جگہ سے محض چند سو میٹر دور اپنی غار میں موجود مزدور پیشہ حاجی حسین کا مزید کہنا تھا، ’’یہاں تک چڑھ کر آنا اور پھر نیچے اترنا بہت مشکل ہے۔ جہاں تک پانی کا معاملہ ہے، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں نیچے سے پانی اپنی کمر پر لاد کر یہاں تک لانا پڑتا ہے۔‘‘

حاجی حسین کی طرح سینکڑوں دیگر خاندان بھی بامیان کی ان غاروں کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں جب طالبان نے بامیان پر قبضہ کیا تو انہوں نے اکثریتی ہزارہ شیعہ لوگوں کے بہت سے گھروں کو جلا دیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں مجبوراﹰ ان غاروں میں پناہ لینا پڑی تھی۔

1990ء کی دہائی کے اواخر میں جب طالبان نے بامیان پر قبضہ کیا تو انہوں نے بدھا کے مجسموں کو تباہ کر دیا تھا
1990ء کی دہائی کے اواخر میں جب طالبان نے بامیان پر قبضہ کیا تو انہوں نے بدھا کے مجسموں کو تباہ کر دیا تھاتصویر: Getty Images/AFP

لیکن 2001ء میں امریکی سربراہی میں افغانستان میں غیر ملکی افواج کی آمد کے دو برس بعد یونیسکو کی طرف سے اس علاقے کو عالمی ورثہ قرار دے دیا گیا، جس کے بعد افغان حکومت نے غاروں میں رہائش پذیر خاندانوں کو وہاں سے نکالنا شروع کر دیا اور بہت سوں کو شہر میں تعمیر کی گئی عارضی رہائش گاہوں میں منتقل کر دیا گیا۔

بامیان کے انفارمیشن اینڈ کلچر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کبیر دادرس کے مطابق لوگ جس قدر دیر تک ان غاروں میں رہیں گے، اتنا ہی زیادہ ان تاریخی غاروں کو نقصان پہنچے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غاروں میں رہنے والے بعض لوگوں نے ان میں کھڑکیاں اور دروازے بھی لگا لیے ہیں اور ان کے اندر اپنے طور پر عارضی تعمیراتی ڈھانچے بھی کھڑے کر لیے ہیں۔ دادرس کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران ان غاروں سے قریب 250 خاندانوں کو دیگر جگہوں پر منتقل کیا گیا مگر اب بھی بہت سے لوگ وہاں رہائش پذیر ہیں۔