باویریا کے انتخابی نتائج: میرکل کے لیے خطرہ
16 ستمبر 2013گزشتہ روز یعنی اتوار 15 ستمبر کو جرمن صوبے باویریا میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کسی کے لیے بھی تعجب کا باعث نہیں ہیں۔ اس جنوبی جرمن صوبے میں کرسچن سوشل یونین سی ایس یو گزشتہ پانچ دہائیوں سے برسر اقتدار ہے۔ تاہم 2008ء تا 2013 ء کی قانون سازی کے عرصے میں باویریا میں ایک سیاسی زلزلہ آیا اور ووٹنگ میں 17 فیصد کے نقصان کے تحت سی ایس یو کو حکومت سازی کے لیے فری ڈیمو کریٹس کی مدد حاصل کرنا پڑی اور یوں سی ایس یو اور ایف ڈی پی کی مخلوط حکومت بنی تھی۔ اس بار باویریا میں ہونے والی ریاستی ووٹنگ کے نتائج کے مطابق کرسچن سوشل یونین سی ایس یو ایک بار پھر 47.7 فیصد ووٹ یعنی بھاری اکثریت حاصل کر کے بغیر کسی اتحاد کے حکومت بنانے کی اہل ہو گئی ہے۔
جرمن صوبے باویریا کا سیاسی مزاج دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ کرسچن سوشل یونین اور باویریا کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ اس بار کے انتخابات میں ووٹروں کی شرح توقعات سے زیادہ یعنی 65 فیصد تھی۔ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں سات فیصد پوائنٹس زیادہ۔ گزشتہ الیکشن میں جن ووٹرز نے فری ڈیمو کریٹک پارٹی کو ووٹ دیے تھے، اس بار انہوں نے روایت برقرار رکھتے ہوئے سی ایس یو کی ہی کمر مضبوط کی۔ پانچ سال قبل کی طرح اس بار حکومت سازی کے لیے سی ایس یو کو فری ڈیموکریٹس کا سہارا نہیں لینا پڑے گا۔
تمام چھوٹی پارٹیوں کو شکست کا سامنا ہوا
اس بار باویریا کے الیکشن میں مجموعی طور پر تمام چھوٹی جماعتوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ گزشتہ بار کے مقابلے میں اس بار کرسچن سوشل یونین سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کو زیادہ ووٹ ملے۔ لیکن ظاہر ہے کہ سی ایس یو کا پلہ بہت بھاری رہا۔ دلچسپ امر یہ کہ باویریا کے صوبائی انتخابات میں چانسلر میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یو کی سسٹر پارٹی سی ایس یو کی شاندار کامیابی کے باوجود آئندہ اتوار یعنی 22 ستمبر کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے کوئی پیشگوئی کرنا آسان نظر نہیں آ رہا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ میرکل کی یورو اور قرضے کے بحران سے نمٹنے سے متعلق پالیسیوں کو خود سی ایس یو کے ووٹ دینے والے کڑی تنقید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یورو کے ناقدین کی ایک اچھی خاصی تعداد مغربی جرمنی کے چند علاقوں میں ’ الٹرنیٹ فار جرمنی‘ AFD کے نام سے وجود میں آنے والی پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں اوراسے بھی ایک نئی سیاسی قوت تصور کیا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ یہ پارٹی مرکز میں سی ڈی یو کے کتنے ووٹ کاٹ لے گی؟
فری ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی
ایف ڈی پی کو باویریا میں لگنے والا دھچکا 22 ستمبر کے پارلیمانی الیکشن میں چانسلر میرکل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ باویریا میں ایف ڈی پی کو بمشکل تین فیصد ووٹ ملے جس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ بہت سے عام شہری یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ووٹرز فری ڈیمو کریٹس کے زخموں پر مرحم رکھتے ہوئے وفاقی سطح پر اپنے ووٹ فری ڈیموکریٹس کے نام کر دیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ میرکل کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے کیونکہ اس طرح سی ڈی یو کے ووٹ بینک میں سے ووٹ کٹ سکتے ہیں، ماہرین خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ خود سی ڈی یو کے ووٹرز از راہ ہمدردی اپنے ووٹ فری ڈیمو کریٹک پارٹی کے نام کر سکتے ہیں۔ تاہم سی ڈی یو کے جنرل سکریٹری ہرمن گروہے ان خدشات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہ امر بالکل واضح ہے کہ ووٹرز کا دوسرا ووٹ انگیلا میرکل ہی کو جائے گا۔‘‘
باویریا میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کو چند ووٹ زیادہ ملے
قدامت پسند کرسچن سوشل یونین کا گڑھ جنوبی صوبے باویریا میں سوشل ڈیمو کریٹس کبھی بھی زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پاتے تاہم اس بار گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں ایس پی ڈی کو کچھ ووٹ زیادہ ملے۔ گرچہ ایس پی ڈی کے چانسلر امیدوار پیئر شٹائن بروک کے مقابلے میں چانسلر میرکل کی مقبولیت کہیں زیادہ ہے تاہم باویریا کے انتخابات کے بعد شٹائن بروک نے نئے عزم و حوصلے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ہم بھرپور خود اعتمادی کے ساتھ پارلیمانی انتخابات سے پہلے کے یہ چند دن اپنی انتخابی مہم میں صرف کریں گے۔ ہم آخر دن تک لڑتے رہیں گے۔‘‘
واگنر فولکر/ کشور مصطفیٰ
عاطف بلوچ