بحرین میں ’بلامشروط‘ قومی مصالحتی مکالمت شروع
3 جولائی 2011داراحکومت مناما میں بحرین کی پارلیمان کے اسپیکر خلیفہ الدہرانی نے اس مذاکراتی کانفرنس کے آغاز پر کہا، ’بحرین کے عوام کے لیے یہ ایک بے مثال اور تاریخی موقع ہے تاکہ وہ اس بلامشروط قومی مصالحتی مکالمت کے ذریعے ملک کو درپیش مسائل کا حل مل بیٹھ کر نکالیں۔‘‘
اس کانفرنس کی تجویز بحرین کے بادشاہ حامد بن عیسیٰ الخلیفہ نے دی تھی۔ بحرین میں اپوزیشن کی جانب سے گزشتہ کئی ماہ سے جاری احتجاجی مظاہروں کے بعد اس کانفرنس کا انعقاد ملک میں موجود کشیدگی کی صورتحال میں بہتری کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ شیعہ اکثریت کے اس ملک کی حکمرانی سنی خاندان کے پاس ہے۔
تیونس میں یاسمین انقلاب کے بعد شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں پھیلنے والی جمہوریت کی حامی تحریک کا اثر بحرین پر بھی پڑا تھا، جہاں اپوزیشن نے فروری میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بحرین میں مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اپوزیشن کے ایک گروپ نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ وہ اس مصالحتی مکالمت میں بحرین کے عوام کا ’مقبول ترین مطالبہ‘ دہرائیں گے۔
الوفاق نامی اس شیعہ گروپ کے رکن خیل مزروق نے اشرق اوسط نامی اخبار کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا، ’ہم ان مصالحتی ڈائیلاگز میں اپنے تمام جائز مطالبات رکھیں گے تاکہ قومی سطح پر ان پر بحث ہو اور مسئلے کا کوئی قابل قبول حل نکلے۔‘
انہوں نے کہا کہ عوام میں مقبول مطالبات میں ایک جمہوری حکومت کے قیام کی خواہش سرفہرست ہے۔ ’’ہمارا مطالبہ ملک میں منتخب حکومت اور منتخب پارلیمان کا ہے۔‘‘
اس سے قبل اس اپوزیشن گروپ نے اسپیکر خلیفہ الدہرانی سے طویل مزاکرے کے بعد مصالحی ڈائیلاگ کا حصہ بننے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ امریکہ نے بھی الوفاق گروپ کی مصالحی عمل میں شمولیت کا خیرمقدم کیا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امتیاز احمد