بحیرہ روم کو اجتماعی قبر نہیں بننا چاہیے، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
21 اپریل 2015ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار بیرنڈ ریگرٹ کے مطابق بحیرہ روم میں تارکین وطن سے بھری کشتیوں کی غرقابی کے واقعات کے بعد یورپی وزراء نے غیر روایتی اقدامات پر زور دیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران تقریباً پچیس ہزار افراد غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران بحیرہ روم کی لہروں کی نذر ہو چکے ہیں اور یہ واقعات ابھی تک تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ اختتام ہفتہ پر ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کی تارکین وطن سے متعلق پالیسی ناکام ہو چکی ہے اور یہ پالیسیاں کسی حد تک غیر انسانی بھی ہیں۔ اتوار کے روز بحیرہ روم میں رونما ہونے والے اس سانحے میں سات سو تک غیر قانونی تارکین وطن ہلاک ہوئے۔ یہ افراد لیبیا سے اطالوی ساحلوں کی جانب رواں تھے۔
ریگرٹ کے بقول اِس واقعے کے بعد ناراض سیاستدانوں اور انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں نے اِس غرقابی کا ذمہ دار یورپی یونین کو ٹھہرایا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے یہ کہنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ افریقی یونین پر کیوں ذمہ داری عائد نہیں کی جا رہی؟ کیا براعظم افریقہ اور مشرقی وسطٰی کے ممالک اپنے شہریوں کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ افریقی قائدین کی جانب سے لوگوں کو کیوں متنبہ نہیں کیا جاتا کہ وہ اسمگلروں کے دام میں نہ آئیں اور ایسےجان لیوا سفر پر روانہ نہ ہوں؟ لیبیا اپنے ساحلوں کو محفوظ بنانے کے لیے کیا کر رہا ہے؟ اِس کا جواب ہے، ’کچھ بھی نہیں‘۔
ہنگامی حالت میں کسی کو ڈوبنے سے بچانا صرف اٹلی یا فرنٹیکس کی صورت میں یورپی یونین کی ذمہ داری نہیں ہے۔ فرنٹیکس سرحدوں کی حفاظت کی یورپی ایجنسی ہے۔ ریگرٹ مزید لکھتے ہیں کہ مہاجرین کی کشتیاں افریقی ساحلوں کے قریب ہی الٹ جاتی ہیں اور اِسی وجہ سے اِس معاملے میں افریقی ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یورپی یونین نے اُن ممالک سے بھی مذاکرات کے لیے متعدد مرتبہ رابطے کیے ہیں، جن کے زیادہ تر شہری اِن کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی اُن ممالک سے بھی، جہاں سے تارکین وطن کی کشیتاں یورپ کے سفر پر روانہ ہوتی ہیں۔ تاہم ابھی تک یورپی یونین کی تمام کوششیں تقریباً بے نتیجہ ہی رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ اِس سے قبل یورپی یونین کی جانب سے شروع کیے جانے والے آپریشن ’مارے نوسٹرم‘ کے دوران بھی بحیرہ روم میں ہزاروں تارکین وطن ڈوب گئے تھے۔ اٹلی بھی اِس آپریشن سے الگ ہو گیا تھا، اِس لیے نہیں کہ اِس پر اخراجات بہت زیادہ آ رہے تھے بلکہ اِس لیے کہ اطالوی وزارت داخلہ تیار نہیں تھی کہ بچائے جانے والے مہاجرین کو اٹلی لایا جائے۔
ریگرٹ کے بقول مختصر عرصے کے لیے لیبیا کے ساحلوں کی ناکہ بندی ضروری ہے تاکہ سمندری راستے سے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ گروہوں کے اِس منافع بخش کاروبار کو تباہ کیا جا سکے۔ اِس کے علاوہ یورپی بحری دستوں کو تارکین وطن کی کشتیوں کو اُن کی روانگی کے وقت ہی روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بیرنڈ ریگرٹ مزید لکھتے ہیں کہ یہ اِس مسئلے کا حل تو نہیں لیکن اِس طرح کم از کم مزید افراد کو ڈوبنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے خیال میں اگر یورپ طویل المدتی بنیادوں پر آج کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں تارکین وطن کو پناہ دینے کا ارادہ نہیں رکھتا تو اسے یہ بات واضح کر دینی چاہیے۔ ساتھ ہی تارکین وطن کی یورپ میں زندگی بسر کرنے کی امید کو ختم کرنے کے لیے لازمی طور پر سختی کرنا چاہیے اور لوگوں کو پابندی سے ملک بدر بھی کیا جانا چاہیے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہی تارکین وطن کی تعداد میں کمی آ سکتی ہے تاہم یہ عمل انتہائی غیر انسانی بھی ہے۔ اس کے بعد پناہ گزین دوسرے اہداف اور طریقہ کار اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ریگرٹ مزید کہتے ہیں کہ یورپ کوقلعے میں تبدیل کرنا غلط طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ پناہ گزینوں کو قانونی طریقے سے کسی اسمگلر کے سہارے کے بغیر یورپ میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اُن کے بقول اِس کام میں مزید دس سال اور ہزاروں افراد کی ہلاکت کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔