دنیا کو میرکل جیسے بے داغ رہنماؤں کی ضرورت ہے
3 دسمبر 2021جمعرات کی شب میرکل نے ایک مختصر تقریر میں پُرجوش انداز میں اپنی قوم سے خطاب کیا اور ان سے کہا کہ وہ دلوں کو کشادہ اور روشن رکھیں اور اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں پُرامید رہیں۔ انگیلا میرکل کی ایک الوداعی تقریب کا انعقاد وفاقی جرمن فوج کی طرف سے کیا گیا تھا۔ میرکل نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں اپنے سولہ سالہ دور اقتدار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس اثناء میں انہیں بہت بڑے بڑے چیلنجر کا سامنا کرنا پڑا۔ بطور سیاستدان اور یورپ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت والے ملک جرمنی کی قائد کی حیثیت سے انہوں نے جن کٹھن لمحات میں مشکلات کا مقابلہ کیا اُن کے ذکر کے ساتھ ہی میرکل کا ایک جملہ مثالی تھا۔ میرکل نے کہا کہ بہت سے چیلنجز ان کے لیے ایک انسان ہونے کے ناطے بہت مشکل تھے۔
میرکل کے اس جملے نے مجھے حیرت زدہ بھی کیا اور یہ سوچنے پر مجبور بھی کہ جس دور میں میرکل اتنی بڑی ذمہ داریوں سے گزر کر سُرخروئی کے ساتھ سبکدوش ہو رہی ہیں اُس دور میں کہیں کوئی دوسرا قائد اور لیڈر اس سوچ اور جذبے والا نظر آتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ دور ہے طاقت سے جائز و ناجائز فوائد حاصل کرنے کا، یہ دور ہے خود غرضی اور انسانیت کے جذبے سے عاری ہو کر سیاسی دوڑ میں آگے سے آگے نکلتے ہوئے دوسروں کو روندنے کا۔ یہ دور ہے جھوٹ، فریب، مقبولیت پسندی اور مفادات پر اخلاقیات اور انسانیت کو قربان کر دینے کا۔ یہ دور ہے صرف اور صرف '' میں اور میرا‘‘ سوچ، خود پسندی، خود نمائی اور خود غرضی کے رویے کو ہی درست اور حق بجانب سمجھنے کا۔
انگیلا میرکل کی چینی صدر کے ساتھ الوداعی ویڈیو کال
میرکل کے ان الفاظ نے مجھے گہری سوچ میں ڈال دیا۔ میں خود سے سوال کر رہی تھی کہ کیا آج کے دور میں '' سیاستدان، لیڈران یا قائدین انسان بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘ اگر یہ انسان ہوتے ہیں یا ان میں جذبہ انسانیت پایا جاتا ہے تو یہ ایسے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں جو دوسرے انسانوں کے لیے نا صرف نقصان دہ بلکہ اکثر ان کی بقا کے لیے خطرات کا سبب ہوتے ہیں؟ ان طاقتور انسانوں کے ہاتھوں میں تو پوری پوری قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔ یہ تو دیگر ممالک اور اقوام کی کئی نسلوں تک کی بربادی کا سبب بننے والے فیصلے کر گزرتے ہیں۔ دنیا کے جتنے بڑے بحران اور انسانی المیے اس وقت ہمارے سامنے ہیں، کیا ان کا سبب یا ان کی وجوہات ارباب اختیار کے فیصلے، سیاستدانوں اور لیڈروں کی پالیسیاں اور طاقت کا وہ نشہ نہیں جو انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں سامنے آنے والے نتائج سے بیگانہ کر دیتا ہے؟
طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنی چاہیے، جرمن چانسلر
میرکل نے یہ بھی کہا کہ ان کے چانسلرشپ کے دور میں متعدد ایسے بحران آئے جن سے نمٹنے کے دوران انہیں بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کا احساس ہوا۔ یہ بیان بھی کانوں کو بڑا انوکھا سا لگا۔ کون سا لیڈر ہے جو ' تعاون اور یکجہتی ‘ کو حقیقی معنوں میں اہمیت دیتا ہے۔ اس دور میں تو ہر طرف تقسیم اور اختلافات کو فروغ دینے کی بات کی جاتی ہے۔
میرکل نے گزشتہ دو برسوں سے پوری دنیا کے نظام کو تہہ و بالا کر دینے والی کورونا وبا کے حوالے سے کہا کہ اس دوران سیاسی رہنماؤں، جمہوریت اور یکجہتی پر اعتماد کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے۔ کس ملک کا سربراہ اس وقت اعتماد کی اہمیت پر روشنی ڈالتا اور اس کی قدر کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ یورپ کے اندر دیکھ لیجیے یا باہر، اعتماد، انصاف، انسانیت، عوامی یکجہتی یہ سب اخلاقیات کے درس کے طور پر نصاب کی کتابوں میں تو ملے گا، طاقت کے مراکز اور ایوانوں کے اندر نہیں۔
چانسلرشپ کے بعد انگیلا میرکل کی مصروفیات کیا ہوں گی؟
جرمنی کی وفاقی وزارت دفاع کی طرف سے انگیلا میرکل کے لیے جو تقریب منعقد ہوئی اُسے کسی سویلین کے لیے فوج کی طرف سے اعلیٰ ترین اعزاز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس تقریب کے دوران اپنے خطاب کے اختتام پر میرکل نے اپنی قوم کو ایک پیغام دیتے ہوئے کہا،'' میں آپ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہوں کہ آپ دنیا کو دوسروں کے نقطہ نظر سے بھی دیکھیں۔‘‘ امریکا ہو یا افریقہ، ایشیا ہو یا یورپ ، ہر طرف نگاہیں دوڑا کر دیکھ لیں کہیں ایسا قائد نظر نہیں آتا جو اپنے عوام کو اور ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر انسانوں کو اس طرح کی مثبت سوچ اور رویے کی ترغیب دلاتا نظر آتا ہے۔
67 سالہ میرکل اپنی سولہ سالہ چانسلر شپ کے آخری آخری لمحات تک یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہیں کہ وہ نہ صرف ایک بہترین قائد ہیں بلکہ ایک عظیم انسان بھی ہیں۔ ترقی، کامیابی، درجات کی بلندی نے اُن کے اندر کی انسانیت کا گلا گھوٹا نہیں بلکہ اُسے مزید نکھار کر وہ دنیا کے لیے ایک مثال چھوڑے جا رہی ہیں۔
’ غلطیاں کرنے والے کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے‘ میرکل
کاش دیگر ممالک کے رہنما اور قائدین بھی اپنے پیچھے کرپشن، اسکینڈل، ذاتی دشمنیاں، طاقت کے ناجائز استعمال کے سبب اپنے عوام کی مخالفت، ناپسندیدگی اور بدنامیوں کے دھبے چھوڑنے کی بجائے انگیلا میرکل جیسی صاف ستھری، باوقار اور باعزت اخلاقی میراث چھوڑ کر جانے کے قابل بن سکیں۔
کشور مصطفیٰ