بدعنوانی مقدمات ، سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف نوٹس جاری
14 اکتوبر 2013احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق صدر کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر سماعت شروع کی تو عدالتی نوٹس کے باوجود ملزم اور احتساب کے قومی ادارے( نیب) کی جانب سے کوئی بھی پیش نہ ہوا۔ اس پر عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ وقفے کے بعد نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے بیرون ملک ہونے کے باعث نوٹس کی تعمیل نہیں ہو سکی۔ جس پر عدالت نے دوبارہ نوٹس جاری کردیا۔
پانچ سال تک ملک کا صدر رہنے کی وجہ سے صدر آصف زرداری کو مبینہ بد عنوانی کے ان مقدمات میں کارروائی سے استثناء حاصل تھا۔ گزشتہ ماہ قصر صدارت سے رخصتی کے ساتھ ہی آصف زرداری سے استثناء کی یہ آئینی ڈھال چھن گئی ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کے نئے چیئرمین قمر زمان چوہدری کی تقرری کے فوری بعد گزشتہ جمعے کے روز سابق صدر کو نوٹس جاری کر دیا تھا۔ آصف علی زرداری کے خلاف نیب میں زیر التواء مقدمات میں ایس جی ایس کی شپمنٹ سے قبل انسپکشن، اے آر وائی گولڈ کو لائسنس کے اجراء میں رشوت لینے، اُرسسزز ٹریکٹروں کی خرایداری میں کمیشن لینے، غیرقانونی طور پر کوٹیکنا کو ٹھیکہ دینے، پاکستان اسٹیل ملز کے سابق چیئرمین سے رشوت لینے، وزیراعظم ہاؤس میں ایک پولو گراؤنڈ کی غیر قانونی تعمیر اور سوئٹزرلینڈ کے ایس جی ایس منی لانڈرنگ کیس کے الزامات شامل ہیں۔
ان تمام مقدمات میں دیگر ملزمان یا تو وفات پا چکے ہیں اور یا پھرعدالت نے اُنہیں بری کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وکلاء ونگ پیپلز لائرز فورم کے راہنما امجد اقبال قریشی کا کہنا ہے کہ تمام مرکزی ملزمان کے بری ہو جانے کے سبب سابق صدر کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات میں کوئی جان باقی نہیں رہی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میں یہ سمھجتا ہوں کہ آصف علی زراری کو سزا ملنے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں۔ یہ عدالت کے وقت کا ضیاع ہوگا اور اس سے قومی خزانے کا نقصان ہوگا۔ خوامخواہ ایک لاحاصل مشق ہو گی اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو گا‘‘۔
دوسری جانب وزیر اعظم میاں نوز شریف اور ان کے بھائی وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے خلاف بھی مبینہ بد عنوانی کے تین مقدمات نیب میں زیر التواء ہیں۔ ان مقدمات میں رائیونڈ میں اثاثہ جات کے علاہ حدیبیہ پیپرز مل اور اتفاق فاؤنڈری ریفرنس شامل ہیں۔ تاہم میاں برادران نے رواں سال کے آغاز پر لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے ان مقدمات میں اپنے خلاف کارروائی کو روکنے کے لیے حکم امتنائی لے رکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ بظاہر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ان مقدمات کے حوالے سے 'مک مکا' کی اطلاعات آرہی ہیں لیکن ان کے بقول پاکستان میں ایک مظبوط عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں ان مقدمات کو آسانی سے کنارے نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے کہا ’’ان کے خلاف جو الزام لگا ہے یا ان کے خلاف استغاثہ کا جو معاملہ ہے وہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو آگے بڑھنا ہو گا اور پھر اس کے نتائج آئین اور قانون کے مطابق جو بھی ہوں وہ سامنے آسکیں گے۔ بہر صورت قمر ذمان صاحب کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے دیکھتے ہیں وہ اس مرحلے سے کیسے نکلتے ہیں؟ ‘‘
ادھر نیب کے ترجمان رمضان ساجد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے چیئرمین (نیب) قمر زمان چوہدری نے بلاتفریق تمام مقدمات کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق ’’چیئرمین نے تمام زیر التواء مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے اور جاری مقدمات پر کام تیز کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے،جو عیدالاضحی کی تعطیلات کے فوری بعد کام شروع کر دے گی‘‘۔