بدنام زمانہ موریا کیمپ میں مہاجر خواتین کی عذاب زندگی
21 اکتوبر 2018امل اپنی عمر کی بیسویں دہائی میں ہیں۔ انہیں اپنے خاندان کے ساتھ یمن میں جاری خانہ جنگی کے سبب گھر بار چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ یمن میں خواتین کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
وہ بحیرہ ایجئین کے راستے ایک پر خطر سفر کے بعد یونانی جزیرے لیسبوس پہنچیں۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے سوچا کہ بالآخر انہیں وہ آزادی حاصل ہو جائے گی جس کا وہ خواب دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس کے بجائے انہیں مہاجر کیمپ موریا بھیج دیا گیا جو ایک کھلی جیل سے کم نہیں۔ امل کے بقول موریا کیمپ ’ زمین پر دوزخ‘ جیسا ہے۔
لیسبوس کے موریا کیمپ میں اس وقت سات ہزار کے قریب تارکین وطن مقیم ہیں جبکہ یہاں صرف تین ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش ہے۔ دوسری جانب یہاں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گنجائش سے کہیں زیادہ افراد کو موریا کیمپ میں رکھے جانے کے سبب یہاں جھگڑے اور فساد روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ علاوہ ازیں جنسی تشدد کے واقعات بھی آئے دن دیکھنے میں آتے ہیں اور کیمپ میں پھنسے مہاجرین کی ذہنی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
امل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے کیمپ میں ایک مہاجر خاتون کو ایک مرد کے ہاتھوں اتنا پٹتے ہوئے دیکھا کہ اس کے جسم سے خون بہنے لگا تھا۔ امل کے بقول یہ واقعہ یونانی پولیس کے سامنے پیش آیا لیکن انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور بعد میں اس خاتون پر ہی الزام لگاتے ہوئے یہ کہا کہ وہ خاتون ایسے مرد کے ساتھ تھی ہی کیوں۔ امل کے مطابق موریا کیمپ میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔
افغان مہاجر خاتون سمیعہ کی کوشش تھی کہ وہ موریا کیمپ کے بارے میں کچھ اچھا کہہ سکیں۔ وہ شکر گزار ہیں کہ وہ اب موریا کیمپ میں نہیں رہتیں بلکہ مہاجرین کے لیے ایک رضاکار تنظیم ’پکپا‘ کی جانب سے قائم کیے گئے ایک کیمپ میں منتقل ہو چکی ہیں۔ سمیعہ کا کہنا ہے کہ موریا میں زندگی بے حد مشکل تھی اور اس کا سبب صرف وہاں رہنے کے غیر صحت بخش حالات ہی نہیں بلکہ کھانا لینے کے لیے لگی طویل قطاریں اور کیمپ میں روزانہ ہونے والے پُر تشدد واقعات بھی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ اور معروف ایکٹیوسٹ کومی نائیڈو بھی جب ایک ماہ قبل موریا کیمپ کے دورے پر گئے تو وہاں بد ترین حالات کا سامنا کرنے کے باوجود خواتین کی ہمت دیکھ کر حیران رہ گئے۔
نائیڈو نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ غریب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو کئی قسم کی ہراسانی کا سامنا ہوتا ہے جن میں جنسی ہراسانی بھی شامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ چہروں پر مسکراہٹ سجائے بڑے حوصلے کے ساتھ ان مشکلات کا مقابلہ کرنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی سعی بھی کرتی رہتی ہیں۔‘‘