برطانوی شہزادہ ہیری پریس پر برہم
22 جنوری 2013لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق برطانوی ملکہ الزبتھ ثانی کے پوتے اور ولی عہد شہزادہ چارلس کے چھوٹے بیٹے ہیری نے یہ بات اپنے اس بیان میں کہی جو انہوں نے ’جنگی خطے‘ میں اپنے فرائض کی تکمیل پر پیر کے روز دیا۔
پرنس ہیری نے افغانستان میں اس برطانوی فوجی اڈے سے، جہاں وہ تعینات تھے، برطانوی نشریاتی ادارے ITV نیوز کو بتایا کہ یہ بات انہیں تکلیف دیتی ہے اور وہ اس پر برہم بھی ہوتے ہیں کہ لوگ ’وہ سب کچھ لکھنا چھوڑ نہیں سکتے جو وہ لکھتے ہیں۔‘ اس برطانوی شہزادے کا یہ انٹرویو ان کی افغانستان میں ’جنگی خطے‘ سے رخصتی کے بعد نشر کیا جانا تھا۔
شہزادہ ہیری نے آئی ٹی وی نیوز کو بتایا، ’میرے والد ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ نہ پڑھو، ہر کوئی مجھے کہتا ہے کہ ایسی باتیں نہ پڑھو کیونکہ ان میں ہمیشہ فضولیات لکھی ہوتی ہیں۔ مجھے اس بات پر حیرانی ہے کہ برطانیہ میں یہ سب کچھ واقعی کتنے لوگ پڑھتے ہیں؟‘
برطانوی شاہی خاندان کے اس رکن نے مزید کہا کہ کیا لوگوں کا قصور یہ ہے کہ وہ اخبارات خریدتے ہیں؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ جو کچھ لکھا جاتا ہے، اس پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔ ’’کم ازکم میں یقینی طور پر ان فضولیات پر یقین نہیں کرتا۔‘‘
شہزادہ ہیری نے، جو کہ تاج برطانیہ کے وراثتی حقداروں کی فہرست میں اپنے والد اور بڑے بھائی کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں، برطانوی اخبارات پر یہ کہتے ہوئے بھی سخت تنقید کی کہ میڈیا نے ان کے بھائی شہزادہ ولیم اور بھابھی کیتھرین کو اس بات پر ’مجبور کر دیا‘ کہ وہ یہ بات منظر عام پر لے آئیں کہ شہزادی کیتھرین ماں بننے والی ہیں۔
پرنس ہیری کے بقول جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں موجود ہونے کے حوالے سے سب سے اچھی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپنے وطن میں میڈیا سے بہت دور ہوتا ہے۔
شہزادہ ہیری نے افغانستان میں اپنی تعیناتی کے پانچ مہینوں پر محیط عرصے کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل امریکی شہر لاس ویگاس کے ایک ہوٹل میں لی گئی اپنی عریاں تصاویر کی برطانوی میڈیا میں اشاعت کے واقعے کے بارے میں کہا کہ ان تصویروں کی اشاعت اس امر کی بڑی واضح مثال ہے کہ میڈیا کسی کی ذاتی زندگی میں کس حد تک اور کس طرح مداخلت کرتا ہے۔
اس بارے میں شہزادہ ہیری نے مزید کہا، ’’شاید میں نے خود کو، اپنے خاندان کو اور دوسرے لوگوں کو بھی ناامید کیا، لیکن یہ تصویریں ایک نجی جگہ پر لی گئی تھیں اور ایک خاص حد تک پرائیویسی کے احترام کی امید تو انسان کر ہی سکتا ہے۔‘‘
mm / aba (AFP)