برطانوی قید میں موجود آسانج کو نوبل انعام ملنا چاہیے، روس
8 دسمبر 2010کریملن انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے روسی خبر رساں اداروں سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’سوشل اور غیر سرکاری تنظیموں کو سوچنا چاہیے کہ آسانج کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے‘‘۔ اس عہدیدار نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، مزید کہا، ’’شاید جولیان آسانج کا نام نوبل انعام کے لیے تجویز کیا جانا چاہیے۔‘‘
یہ بیان روس کے تقریباﹰ تمام ہی خبررساں اداروں کی طرف سے جاری کیا گیا ہے، تاہم اس عہدیدار کے بارے میں یا اس سے متعلق مزید کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی۔
دوسری طرف جولیان آسانج کی رہائی کے لیے ایک برطانوی عدالت میں دائر کی گئی اپیل خارج کیے جانے کے بعد وکی لیکس کے یہ سربراہ ابھی تک برطانوی پولیس کی حراست میں ہیں تاہم انہوں نے اس بات کا عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ سویڈن حکام کو اپنی حوالگی کے خلاف بھرپور کوشش جاری رکھیں گے۔
جولیان آسانج کی اس کوشش میں مدد کے لیے اب انسانی حقوق کے ایک نامور وکیل جیفری رابرٹسن بھی شامل ہوگئے ہیں۔ رابرٹسن کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وہ وکی لیکس کے بانی جولیان آسانج کی سویڈن کو حوالگی رکوانے کے لیے ان کا مقدمہ لڑیں گے۔
رابرٹسن، جو کہ بیرسٹر ہیں اور برطانیہ اور آسٹریلیا کی دوہری شہریت رکھتے ہیں، برطانوی تاریخ میں آزادی اظہار کے حوالے سے دائر ہونے والے کئی معروف مقدمات کی پیروی کر چکے ہیں۔
رابرٹسن کی ویب سائٹ کے مطابق وہ اقوام متحدہ کی جسٹس کونسل کے بھی رکن ہیں اور سیرا لیون میں قائم کی جانے والی اقوام متحدہ کی خصوصی عدالت کے اولین صدر بھی رہ چکے ہیں۔
39 سالہ آسٹریلوی شہری جولیان آسانج کو لندن کی وانڈزورتھ جیل میں رکھا گیا ہے۔ انہیں منگل سات دسمبر کو یورپی وارنٹ گرفتاری کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ وارنٹس جنسی زیادتی کے الزامات کے تحت سویڈن کی طرف سے جاری کئے گئے تھے۔ تاہم آسانج کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان وارنٹس کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما ہیں، جس کی وجہ آسانج کی ویب سائٹ وکی لیکس کی طرف سے حال ہی میں جاری کی جانے والی امریکی سفارتی دستاویزات ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی