برطانوی نوآبادیاتی دور کی زیادتی: لندن جزیرے لوٹانے پر مجبور
26 فروری 2019ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پیر پچیس فروری کی شام سنائے گئے ایک فیصلے کے مطابق برطانیہ نے، جو ماضی میں ماریشیس پر حکمران نوآبادیاتی طاقت رہا ہے، 1960ء کے عشرے میں ان تقریباﹰ 60 چھوٹے بڑے جزائر کے مجموعے کو غیر قانونی طور پر ماریشیس سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا تھا۔ اسی لیے لندن حکومت کو اب یہ جزائر اور ان کا انتظام ’جتنا جلد ممکن ہو‘، واپس بحر ہند کی جزائر پر مشتمل ریاست ماریشیس کو لوٹانا ہوں گے۔
چاگوس کا مجموعہ جزائر جغرافیائی طور پر ماریشیس اور مالدیپ کے درمیان سمندر میں واقع ہے اور وہ بحر ہند میں ابھی تک برطانیہ کی ملکیت میں چلے آ رہے آخری علاقوں میں سے ایک ہے۔ ماضی میں چاگوس کا مجموعہ جزائر ماریشیس ہی کا حصہ تھا، جس کا انتظام بھی ماریشیس کی نوآبادیاتی انتظامیہ ہی کے پاس تھا۔
آزادی سے قبل نوآبادیاتی تقسیم
لیکن 1968ء میں جب ماریشیس نے آزادی اور خود مختاری حاصل کی اور وہاں برطانوی نوآبادیاتی دو رکا خاتمہ ہو گیا، تو اس سے کچھ ہی عرصہ قبل لندن حکومت نے ان جزائر کو باقی ماندہ ماریشیس سے علیحدہ کر کے انہیں براہ راست اپنی حکمرانی اور انتظام میں لے لیا تھا۔ تب ماریشیس نے ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر برطانیہ کا یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا۔
برطانیہ کا ’غیر قانونی اقدام‘
اس مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) کے جج عبدالقوی احمد یوسف نے کہا، ’’برطانیہ اس امر کا پابند ہے کہ وہ چاگوس کے مجموعہ جزائر پر اپنا انتظام جتنا جلد ممکن ہو ختم کرے اور ماریشیس کے لیے اس بات کو ممکن بنائے کہ وہ اپنے اس علاقے کے غیر نوآبادیاتی بنائے جانے کے عمل یا ’ڈی کالونائزیشن‘ کو مکمل کر سکے۔‘‘
ساتھ ہی جسٹس عبدالقوی احمد یوسف نے مزید کہا، ’’اس سمندری علاقے کی تقسیم اور اس کا ماریشیس سے علیحدہ کیا جانا برطانیہ کا ایک غیر قانونی فعل تھا۔
ماریشیس کے لیے ایک تاریخی لمحہ
ماریشیس کی حکومت نے دی ہیگ میں آئی سی جے کے اس فیصلے کو اپنے اور اپنے ملک کے عوام کے لیے ایک ’تاریخی لمحے‘ کا نام دیا ہے۔ ماریشیس کے وزیر اعظم پراوِند جگناتھ نے اس موقع پر کہا، ’’اب ہماری جغرافیائی وحدت مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا، تو چاگوس کے مجموعہ جزائر کے عوام اور ان کی نئی نسل بالآخر واپس اپنے گھر لوٹ آئیں گے۔‘‘
برطانوی فوجی اڈہ
برطانیہ نے 1968ء اور 1973ء کے درمیانی عرصے میں اپنی براہ راست حکمرانی کے دور میں ان جزائر کے قریب دو ہزار باسیوں کو وہاں سے نکال کر اس لیے برطانیہ اور ماریشیس کے علاوہ جزائر سیشلز پر آباد کر دیا تھا کہ وہاں ایک بڑے برطانوی فوجی اڈے کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ تب اس عمل کے لیے لندن حکومت نے تین ملین پاؤنڈ بھی ادا کیے تھے۔
تضحیک آمیز حوالہ
برطانوی حکمرانی کے دور میں جزائر چاگوس سے جن مقامی باشندوں کو وہاں سے نکال کر دیگر مقامات پر آباد کیا گیا تھا، ان کے لیے برطانیہ کی ایک سفارتی دستاویز میں ’بےدخلی‘ کے بجائے ’چند ٹارزنوں اور فرائیڈیز‘ کی منتقلی کا ذکر کیا گیا تھا۔
تب برطانیہ کے سفارتی نمائندوں نے اس عمل کے لیے ’چند ٹارزنوں اور فرائیڈیز‘ کی اصطلاح ٹارزن کے علاوہ رابنسن کروزو کے ایک ناول کے کردار ’فرائیڈے‘ کے حوالے سے بھی استعمال کی تھی، جو بظاہر ایک تضحیک آمیز انداز تھا۔
امریکی فوجی اڈہ
برطانوی وزارت خارجہ نے دی ہیگ کی عدالت کے اس فیصلے کے بعد کہا ہے کہ جزائر چاگوس پر برطانوی فوجی اڈہ بحر ہند میں برطانوی علاقوں کے دفاع اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ برطانیہ اور دنیا بھر کے انسانوں کو منظم جرائم اور قزاقی جیسے عوامل سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
اس وقت ان جزائر میں سے سب سے بڑے جزیرے ڈیگو گارشیا پر قائم اپنا فوجی اڈہ برطانیہ نے پٹے پر امریکا کو دے رکھا ہے، جو بحر ہند میں امریکی عسکری طاقت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ یہ امریکی اڈہ سرد جنگ کے زمانے میں انتہائی زیادہ عسکری اہمیت کا حامل تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ برسوں کے دوران افغانستان اور عراق کی جنگوں میں ہوائی حملوں کے لیے بھی امریکا اپنا یہی فضائی اڈہ استعمال کرتا رہا ہے۔
لندن کا اعتراف جرم
جس مقدمے میں اب آئی سی جے نے فیصلہ سنایا ہے، اس کی سماعت کے دوران گزشتہ برس ستمبر میں برطانیہ نے یہ اعتراف بھی کر لیا تھا کہ اس کی طرف سے ان جزائر کے مقامی باشندوں کا جبراﹰ دیگر ممالک میں آباد کیا جانا ایک ’شرمناک اور غلط اقدام‘ تھا، جس پر لندن حکومت نے معافی بھی مانگ لی تھی۔ ساتھ ہی لندن حکومت کی طرف سے ماریشیس پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اس کی طرف سے اس مقدمے کا بین الاقوامی عدالت انصاف میں لایا جانا ایک ’غلط اقدام‘ تھا۔
حکم پر عمل درآمد لازمی نہیں
بین الاقوامی قانون کے تحت عالمی عدالت انصاف اپنے جو فیصلے سناتی ہے، وہ ہوتے تو بہت زیادہ علامتی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ اس عدالت کا قیام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک فیصلے کے تحت عمل میں آیا تھا۔ تاہم لندن حکومت کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت اس فیصلے پر عملہ درآمد کرنا لازمی نہیں ہے۔
ساتھ ہی یہی فیصلہ ماضی کی عظیم نوآبادیاتی طاقت برطانیہ کے لیے ایک بڑا دھچکا بھی ہے، جسے آئندہ دنوں میں یورپی یونین سےاپنے مجوزہ اخراج کے پس منظر میں دنیا میں اپنے لیے نئے سرے سے ایک مقام حاصل کرنے کی کوششیں کرنا پڑیں گی۔
73 برسوں میں 28 واں فیصلہ
دی ہیگ کی اس عالمی عدالت نے جزائر چاگوس سے متعلق اپنا جو فیصلہ سنایا ہے، وہ 1946ء میں اس عالمی عدالت کے قیام سے لے کر آج تک اس کی طرف سے سنایا گیا مجموعی طور پر صرف 28 واں فیصلہ ہے۔ اس عدالت میں مقدمات اکثر سالہا سال تک زیر سماعت رہتے ہیں۔ یہ عدالت اس لیے قائم کی گئی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے اہم ترین قانونی بازو کے طور پر کام کر سکے اور اس عالمی ادارے کے رکن ممالک کے مابین پیدا ہونے والے قانونی جھگڑوں کو نمٹا سکے۔
م م / ع ب / اے ایف پی، ڈی پی اے