برطانوی پارلیمان کا انکار، شام پر اکیلے امریکا کا حملہ ممکن
30 اگست 2013لندن میں برطانوی پارلیمان کے جمعرات کی رات کیے گئے اکثریتی فیصلے کو قدامت پسند وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کے لیے ایک ’حیران کن اور بڑی ناکامی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں پارلیمانی قرارداد 13 ووٹوں کے فرق سے مسترد کر دی گئی۔ لندن حکومت اس پارلیمانی فیصلے کا احترام کرنے کی پابند نہیں ہے تاہم وزیر دفاع فِلِپ ہیمنڈ نے رائے شماری کے بعد کہا کہ برطانیہ اب شام کے خلاف کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی میں شامل نہیں ہو گا۔
کیمرون حکومت چاہتی تھی کہ پارلیمان اس ممکنہ حکومتی فیصلے کی حمایت کر دے کہ برطانیہ کو شام میں اسد حکومت کی فورسز کے خلاف اتحادی ملکوں کے فضائی حملوں میں شامل ہونا چاہیے۔ تاہم دارالعوام کے ارکان نے 272 کے مقابلے میں 285 ووٹوں سے اس حکومتی قرارداد کی مخالفت کر کے اس بارے میں وزیر اعظم کیمرون کے تمام ارادوں کو ناکام بنا دیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے لندن سے اس بارے میں اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ اس پارلیمانی رائے شماری کے نتائج کیمرون کی 2015ء میں دوبارہ انتخاب کی امیدوں کو منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی غیر متوقع پارلیمانی فیصلے کو امریکا اور برطانیہ کے روایتی طور پر مضبوط باہمی تعلقات کے لیے ایک دھچکا بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے برطانیہ میں یہ 1782ء کے بعد پہلا موقع ہے کہ کسی وزیر اعظم کی طرف سے جنگ کی منظوری کے لیے پیش کی گئی قرارداد کو پارلیمان نے رد کر دیا ہو۔
اسی دوران واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے جمعرات کی رات یہ کہا گیا کہ برطانوی پارلیمان کی طرف سے انکار کے بعد شام کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی میں برطانیہ کی عدم شمولیت کے باوجود امریکا اس بارے میں اپنے فیصلوں میں لندن حکومت کے ساتھ مشاورت جاری رکھے گا۔ وائٹ ہاؤس کی ایک خاتون ترجمان کے مطابق امریکی صدر جو بھی فیصلہ کریں گے، وہ امریکا کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ امریکا کے قریب ترین اتحادیوں اور دوستوں میں سے ایک ہے، جس کے ساتھ مشاورت جاری رکھی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں خاتون ترجمان نے یہ اشارہ بھی دیا کہ اقوام متحدہ کے کسی مینڈیٹ کی عدم موجودگی اور برطانیہ کی عدم شمولیت کے باوجود صدر باراک اوباما یہ بالکل فیصلہ کر سکتے ہیں کہ امریکا اکیلا ہی شام پر فضائی حملے شروع کر دے۔
ادھر امریکی کانگریس کے ایک سرکردہ ڈیموکریٹک رکن نے کہا ہے کہ صدر باراک اوباما نے ابھی تک شام کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے وقت اور اس کے دائرہ کار کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ نیو یارک سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس ایلیٹ اینگل نے، جو کانگریس کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے اعلیٰ ترین ڈیموکریٹ رکن ہیں، نیوز ایجنسی اے پی کو جمعرات کی رات بتایا کہ اوباما انتطامیہ کے اہلکاروں نے اراکین کانگریس کو ایک ٹیلی فونک کانفرنس کے دوران اطلاع دی کہ اس بارے میں ’کوئی شک نہیں‘ کہ شام میں صدر اسد کی فورسز نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ ایلیٹ اینگل کے بقول صدر اوباما کو شام کے خلاف ’فوجی کارروائی کے وقت کا فیصلہ ابھی کرنا ہے‘۔
بیجنگ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق چینی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر شام سے متعلق کسی بھی کارروائی کے لیے کسی فیصلے کے سلسلے میں کوئی دباؤ نہیں ڈالا جانا چاہیے۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے سنہوا نے آج جمعے کے روز بتایا کہ وزیر خارجہ وانگ ژی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا کہ چین شام کے بارے میں کیمیائی ہتھیاروں کے عالمی معائنہ کاروں کے موجودہ تحقیقاتی مشن کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں تکمیل کی حمایت کرتا ہے۔
سنہوا نے لکھا ہے کہ چینی حکومت اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ اس چھان بین کے نتائج کا ’قبل از وقت اندازہ‘ نہیں لگایا جانا چاہیے اور نہ ہی سلامتی کونسل سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس چھان بین کی تکمیل سے پہلے ہی شام کے بارے میں اپنا کوئی فیصلہ کر لے۔