برطانیہ: بریگزٹ منصوبے پر لندن پارلیمنٹ میں بحث شروع
31 جنوری 2017برطانوی پارلیمنٹ کے کئی ارکان برطانیہ کے بدستور یورپی یونین ہی میں شامل رہنے کے حامی ہیں اور اِن ارکان کی کوشش ہے کہ حکومت کو اپنی حکمتِ عملی پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔ تاہم نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق منگل اکتیس جنوری کو پہلے روز کی کارروائی کو دیکھتے ہوئے توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ پلان پارلیمنٹ کی جانب سے کئی ہفتوں پر پھیلے ہوئے کسی شدید بحث مباحثے کی زَد میں آنے سے بچ جائے گا۔
گزشتہ ہفتے برطانوی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم مے آرٹیکل پچاس پر عملدرآمد اور یورپی یونین کو چھوڑنے کے لیے قانونی طریقہٴ کار شروع کرنے کا فیصلہ اکیلے ہی یکطرفہ طور پر نہیں کر سکتیں اور اُنہیں اس سلسلے میں پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وزیر اعظم مے نے ایک قانونی مسودہ بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا ہے اور اس مسودے کی منظوری کا مطلب یہ ہو گا کہ مے کو یورپی یونین سے الگ ہونے کا طریقہٴ کار شروع کرنے کی باقاعدہ اجازت مل جائے گی۔
بریگزٹ سے متعلقہ برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے اِس بِل پر دو روزہ بحث کے آغاز پر، جو کہ قانون سازی کا پہلا مرحلہ ہے، کہا:’’اس بِل کا سیدھے سیدھے مقصد یہ ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج کو عملی شکل دی جائے، اس ریفرنڈم کی شکل میں برطانوی عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور وہ اس پیش رفت کو روکنے کی کسی بھی کوشش کو اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔‘‘
کچھ ارکان کی کوشش ہو گی کہ وہ قانون سازی کے اِس عمل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مے کو مجبور کریں کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ مذاکراتی عمل کے دوران اپنی حکمتِ عملی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تفصیلات بتائیں۔ وہ چاہیں گے کہ اس مذاکراتی عمل میں پارلیمنٹ کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کا اختیار دیا جائے اور ہو سکے تو بریگزٹ کا پورا عمل ہی روک دیا جائے۔
تاہم قدامت پسند مے کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا یہ مسودہٴ قانون پروگرام کے مطابق اور زیادہ رد و بدل کے بغیر ہی مارچ کے آخر تک پارلیمنٹ سے منظور ہو جائے گا۔
پارلیمان کی دوسری بڑی جماعت لیبر پارٹی نے یہ تو کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو بریگزٹ عمل کی اور زیادہ سختی سے جانچ کرنی چاہیے تاہم اُس نے کہا ہے کہ وہ اس عمل کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ لیبر کے بہت سے ارکانِ پارلیمان انفرادی سطح پر بہرحال اس قانون کی مخالفت کریں گے۔
مختلف اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی جانب سے مے کے تجویز کردہ مسودے میں ترامیم کے لیے پانچ الگ الگ درخواستیں دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یورپی یونین کی حامی سکاٹش نیشنل پارٹی کی جانب سے ہے، جس پر رائے شماری بدھ کو ہو گی۔