برطانیہ میں داعش کے بڑے حملوں کا خطرہ ہے، برطانوی اہلکار
26 فروری 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بات دہشت گردی کے تناظر میں نگہبانی کے نئے برطانوی ادارے کے سربراہ کی طرف سے کہی گئی ہے۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹیلیگراف کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں دہشت گردی کے حوالے سے برطانوی قوانین کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سنبھالنے والے میکس ہِل نے کہا کہ عسکریت پسند شہروں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ ارادہ رکھتے ہیں اور ’’یہ ایک ایسا بڑا اور مسلسل خطرہ ہے جسے ہم میں سے کسی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا یہ انٹرویو آج اتوار 26 فروری کو شائع ہوا ہے۔
میکس ہل کے مطابق، ’’دہشت گردی کے اس منصوبے میں شہری علاقوں میں عام اور معصوم لوگوں کو بلاامتیاز نشانہ بنانے کا خطرہ موجود ہے، بھلے ان کا تعلق کسی بھی نسل سے ہو یا ان کا کوئی بھی رنگ ہو۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے، ’’لہذا میں سمجھتا ہوں کہ بلا شبہ یہ ایک مسلسل خطرہ ہے جو کم از کم اس قدر بڑا ہے۔ جیسا 70 کی دہائی میں لندن کو لاحق تھا، جب آئرش ری پبلکن آرمی ملک میں سرگرم تھی۔‘‘
آئرش ری پبلکن آرمی شمالی آئرلینڈ سے برطانیہ کا کنٹرول ختم کرانے اور آئرلینڈ کے اتحاد کے لیے مسلح کارروائیاں کرتی رہی تھی، تاہم اس گروپ نے 1998ء میں طے پانے والے امن معاہدے کے بعد یہ مسلح جدوجہد ترک کر دی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں شروع ہونے والے اس فرقہ ورانہ تنازعے کے نتیجے میں کم از کم 3,600 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے برطانوی سکیورٹی فورسز کے 1,000 ارکان بھی شامل تھے۔
برطانوی سکیورٹی حکام یہ بات کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ عراق اور شام میں شکست سے دوچار دہشت پسند گروپ داعش کے جنگجو برطانیہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔