1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں ٹی بی کی تشخیص کا ناقص نظام

25 اپریل 2011

برطانیہ میں نئے آنے والے تارکین وطن میں مہلک عارضے ٹی بی کے پوشیدہ کیسز کا پتہ لگانے والی اسکرینگ موثر نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/113UY
جنوبی افریقہ میں ٹی بی کے مریضوں کی صورتحال ناگفتہ بہتصویر: The Global Fund/Juda Mgwenya

طبی ماہرین کی ایک تازہ رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں نئے آنے والے تارکین وطن میں ٹی بی کے کیسز کا پتہ لگانے کے لیے بروئے کار لایا جانے والا اسکریننگ نظام بہت سے پوشیدہ کیسز کا پتہ لگانے میں ناکام رہتا ہے۔ سائنسدانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس اسکرینگ کو موئثر اور وسیع تر بنایا جائے اور خاص طور سے برصغیر پاک وہند سے آنے والے تارکین وطن کے اندر ٹی بی کے مرض کا پتہ لگایا جانا نہایت اہم ہے۔

برطانیہ مغربی یورپ کا وہ واحد ملک ہے جہاں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے اسے یورپ کا ٹی بی کا مرکز بھی کہا جاتا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق برطانیہ کی سرحدی پولیس کے لیے ایسے ممالک کے تارکین وطن کے سینے کا ایکسرے کرنا ضروری ہے جہاں اوسطاً ایک لاکھ انسانوں میں سے 40 سے زیادہ کو ٹی بی کا موذی مرض لاحق ہے۔ اس وقت برطانیہ آنے والے ایسے تارکین وطن جن کا ایکسرے کیا جاتا ہے، میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقہ سے ہے اور ان میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ایشیائی ممالک شامل نہیں ہیں۔

Tuberkulose in Indien Arztpraxis
بھارت میں بھی ٹی بی کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

ٹی بی کا عارضہ ایک بیکٹیریل انفکشن یا جراثیمی عفونت سے پیدا ہوتا ہے جوعموماً علامات کے بغیر ہوتا ہے۔ تاہم دس میں سے ایک کیس سنگین شکل اختیار کر جاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ بیکٹیریا پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے ۔ ٹی بی کے عارضے میں مبتلا ہونے والے افراد میں سے تقریباً نصف کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ آنے والے تارکین وطن میں سے بہت کم کے اندر ٹی بی کا مرض فعال شکل میں نظر آتے ہے، تاہم ان میں سے اکثر کے اندر ٹی بی کے جراثیم چُھپے ہوتے ہیں اور چند سالوں کے اندر یہ مرض فعال ہو جاتا ہے۔

برطانوی حکام نے اپنی سرحدوں میں داخل ہونے والے تارکین وطن کے اندر ٹی بی کے مرض کا پتہ لگانے کے لیے جو اسکریننگ نظام رکھا ہوا ہے اُس کے موئثر ہونے کا اندازے لگانے کے لیے برطانوی محققین نے 2008 ء تا 2010 ء تک تین اسکرینگ سینٹرز میں کیے جانے والے ٹیسٹ اور آبادی کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا۔ ان مراکز میں خاص قسم کے بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے پوشیدہ ٹیبی کیسز کا پتہ لگانے کی کوشش کی گئی۔ اس ٹیسٹ کو ’ انٹر فیروں گاما ریلیز ایسّسے‘ IGRA کہا جاتا ہے۔ ان ٹیسٹس کے نتائج Lancet Infectious Diseases Jouranl میں شائع ہوئے، جن سے انکشاف ہوا کہ برصغیر پاک وہند سے برطانیہ آنے والے 20 فیصد تارکین وطن اور سب صحارا یا ذیلی صحارا افریقہ کے 30 فیصد تارکین وطن باشندوں کے اندر ٹی بی کا مرض پوشیدہ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ برطانیہ میں تاریکن وطن کے اندر ٹی بی کی بیماری کا کھوج لگانے والی اسکریننگ پالیسی میں برصغیر کے تارکین وطن شامل نہیں ہیں اور اس طرح اس نظام کے ذریعے لگائے جانے والے اندازوں میں غیر ملکوں سے برطانیہ آنے والے والے ٹی بی کے چھپے ہوئے 70 فیصد کیسز کا پتہ نہیں چلایا جا سکا۔

T.B. spreads when contagious people cough TB bacteria out of their lungs. These bacteria can remain suspended in the air for hours. The best prevention for stopping the spread of the bacteria is to cure infectious patient with the DOTS strategy. (AP-Photo/HO. 1997)
ٹی بی کے مرض کی علامات اکثر دیر سے ظاہر ہوتی ہیںتصویر: AP

ٹی بی تمام دنیا میں پایا جانے والا مرض ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کے اُن 15 ممالک جن میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، میں سے 13 کا تعلق بر اعظم افریقہ سے ہے، جبکہ ٹی بی کے نئے کیسز میں سے ایک تہائی چین اور بھارت میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں