برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری
6 مئی 2010آج ووٹنگ کے دن بھی کوئی واضح رجحان نظر نہیں آ رہا ہے۔ تمام تر آثار سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی جماعت کامل اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔
برطانیہ میں اِس بار پولنگ اسٹیشنوں پر دن کے ابتدائی حصے میں ماضی کے برعکس زیادہ رونق دیکھی گئی۔ اِس سے یہی لگتا ہے کہ برطانوی شہری، جو گزشتہ برسوں کے دوران ووٹ ڈالنے کے معاملے میں سست روی کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے تھے، اِس بار زیادہ بڑی تعداد میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔
اِن ووٹروں کے نزدیک آخر ملک کے کون سے مسائل زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اِس سوال کے جواب میں چند ایک ووٹروں نے بتایا کہ تارکینِ وطن کا مسئلہ، تعلیم کا بحران، ملک کی اقتصادی مشکلات اور ایوانِ زیریں کے ارکان کے ہوش رُبا اخراجات وہ مسائل ہیں، جو اُن کے ذہنوں پر ہیں اور جن کی روشنی میں وہ آج اپنے ووٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔
رائے عامہ کے اب تک کے جائزوں سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ برطانیہ میں آئندہ سربراہِ حکومت کون بنے گا۔ موجودہ وزیر اعظم گورڈن براؤن سے ایک کے بعد دوسری غلطی سرزد ہوتی گئی اور اُن کے لئے عوامی حمایت میں زبردست کمی آ چکی ہے۔
تاہم لندن کی برونیل یونیورسٹی سے وابستہ ماہرِ سیاسیات پروفیسر جسٹن فشر کے خیال میں اپوزیشن کی کنزرویٹو ٹوری پارٹی کے نوجوان اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نظر آنے والے رہنما ڈیوڈ کیمرون کو بھی کوئی واضح کامیابی حاصل ہوتی نظر نہیں آتی:’’میرے خیال میں کنزویٹو پارٹی کے لئے کامل اکثریت حاصل کرنا بہت مشکل ہو گا کیونکہ اُنہیں اِس کے لئے بہت زیادہ اضافی نشستوں کی ضرورت ہو گی، مجموعی طور پر 116 نشستوں کی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یہ تیسری سب سے بڑی تعداد ہے، جو اُنہیں مل بھی جائے تو وہ ایک ووٹ کی سبقت سے کامل اکثریت حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اِن ا نتخابات میں کنزرویٹوز کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے۔‘‘
پارلیمانی ارکان نے جس طرح قوم کی ٹیکسوں کی رقوم کو پانی کی طرح بہایا، اُس پر بہت سے رائے دہندگان دونوں ہی بڑی جماعتوں سے مایوس نظر آتے ہیں۔
رائے عامہ کے زیادہ تر جائزوں میں اپوزیشن کی کنزرویٹو پارٹی کو لبرل ڈیموکریٹس اور لیبر پارٹی پر معمولی سی سبقت حاصل ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس اور لیبر پارٹی کے لئے عوامی حمایت تقریباً ایک جیسی ہے اور اُن کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔ دوسری طرف کنزرویٹو پارٹی کی سبقت بھی اتنی زیادہ نہیں کہ وہ ایک اکثریتی حکومت قائم کر سکے۔ ایسے میں ابھی بھی ایک معلق پارلیمان وجود میں آنے کا امکان ہے اور یہ ایسی صورِ حال ہے، جو 70ء کے عشرے سے دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک