برطانیہ کی طرف سے نریندر مودی کا دس سالہ بائیکاٹ ختم
22 اکتوبر 2012نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ فروری سن 2002ء میں بھارت کی اس مغربی ریاست میں ہونے والے مذہبی فسادات میں کم از کم ایک ہزار شہری مارے گئے تھے، جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ تب گجرات میں ریاستی حکومت کے سربراہ نریندر مودی تھے، جو اس منصب پر 2001ء میں فائز ہوئے تھے۔
خبر ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق مودی اس وقت دائیں بازو کی ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی BJP کے ایک سینئر لیڈر ہیں اور انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی طرف سے ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ فسادات کے دوران ان انسانی ہلاکتوں میں مودی کا بھی ایک باقاعدہ کردار رہا ہے۔
انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ دس سال قبل فروری میں ہونے والے مذہبی فسادات میں مبینہ طور پر نریندر مودی کا اتنا حصہ رہا ہے کہ انہوں نے فوری طور پر کوئی فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے تھے۔ دوسری طرف مودی اپنے خلاف ایسے تمام الزامات کو رد کرتے ہیں۔ ان خونریز فسادات کے سلسلے میں تیار کی گئی کئی تحقیقاتی رپورٹوں میں بھی انہیں بے قصور قرار دیا جا چکا ہے۔
اس پس منظر میں برطانوی حکومت نے قریب ایک عشرے سے نریندر مودی کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ تاہم آج پیر کو بھارت میں برطانوی سفیر جیمز بیون (James Bevan) نے ایک طویل عرصے بعد ریاستی دارالحکومت گاندھی نگر میں نریندر مودی کے ساتھ ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ بھارتی حکام کے بقول اس موقع پر بیون اور مودی کے درمیان ہونے والی بات چیت میں زیادہ تر توجہ تجارتی امور اور سرمایہ کاری پر مرکوز رہی۔
لندن حکومت کی طرف سے اسی مہینے کی گیارہ تاریخ کو یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ گجرات میں نریندر مودی کی حکومت کا وہ بائیکاٹ ختم کر دے گی، جو اس ریاست میں 2002ء کے مذہبی فسادات کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے برطانیہ میں دفتر خارجہ کے وزیر ہُوگو اسوائر نے یہ بھی کہا تھا کہ گجرات میں برطانیہ کے مفادات کافی زیادہ اور بڑے متنوع ہیں۔
گجرات میں گزشتہ گیارہ برسوں سے برسر اقتدار وزیر اعلیٰ نریندر مودی اب بی جے پی کے ایک سینئر رہنما ہیں اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ 2014ء کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے امیدوار بھی نامزد کیے جا سکتے ہیں۔
نریندر مودی کی قیادت میں گجرات کی ریاستی انتظامیہ کے ساتھ باضابطہ رابطوں پر یورپی یونین نے بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یورپی یونین نے ابھی تک اپنی طرف سے عائد کردہ اس پابندی کے خاتمے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ امریکا کی طرف سے نریندر مودی کو دو مرتبہ امریکا جانے کے لیے ویزا دیے جانے سے انکار بھی کیا جا چکا ہے۔
(mm / aa (dpa