برطانیہ:پرتشدد بدامنی کے بعد نسل پرستی کے خلاف زبردست مظاہرے
8 اگست 2024برطانیہ میں حالیہ دنوں میں فسادات پھیلانے والے انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں نسل پرستی مخالف مظاہرین نے لندن اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر ریلیاں نکالی ہیں۔
میٹروپولیٹن پولیس نے بتایا کہ برطانوی دارالحکومت لندن میں ہزاروں پولیس افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔
مزید برآں، لندن میں حسب ضرورت 1,300 کے قریب خصوصی سکیورٹی اہلکار اسٹینڈ بائی پر رکھے گیے ہیں۔
برطانیہ میں مزید مساجد اور اسلامی مراکز پر حملوں کا خدشہ
برطانیہ میں مسلم مخالف مظاہرے: 'مسجد جاتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے'
نسل پرستی مخالف مظاہرین نے، بدھ کی شام تک، تارکین وطن، پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں کا خیرمقدم کرنے والے پیغامات سے سڑکیں بھر دیں۔
برمنگھم، شیفیلڈ، لیورپول اور برسٹل سمیت دیگر شہروں میں بھی بڑے اور پرامن احتجاج ہوئے۔
'مہاجرین کا استقبال' اور 'نسل پرستی کے خلاف لندن'
لوگوں نے ڈھول بجا کر لندن میں "مہاجرین کو خوش آمدید" اور "نسل پرستی کے خلاف لندن" کے نعرے لگائے۔
مشرقی لندن کے علاقے والتھمسٹو میں ایک امیگریشن سنٹر کے باہر، جہاں ایک بڑا اجتماع ہوا، ایک رہنما نے نعرہ لگایا، "فاشسٹ چلے گئے" جس پر سیکڑوں کے ہجوم نے جواب دیا: "ہماری سڑکوں سے دور"۔
کچھ لوگوں نے تختیاں اٹھا رکھی تھیں جن میں لکھا تھا کہ "دائیں بازو کو روکو،" "ہجرت کوئی جرم نہیں ہے" اور "فنچلے فاشزم کے خلاف۔"
لندن میں ’اسلاموفوبیا اور نسل پرستی‘ کے خلاف بڑا مظاہرہ
وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے حالیہ ہنگاموں کو "دائیں بازو کی غنڈہ گردی" قرار دیا ہے اور ان بیانات کو مسترد کردیا کہ فسادات حکومت کی امیگریشن پالیسیوں کے سبب ہوئے۔
جھڑپوں، گرفتاریوں کے بعد لندن میں کشیدگی عروج پر
گزشتہ ہفتے ایک مظاہرے کے دوران مظاہرین کے ساتھ افسران کی جھڑپوں کے بعد خاص طور پر لندن میں کشیدگی بہت زیادہ ہے۔ اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے 100 سے زیادہ گرفتاریاں ہوئیں۔
لیورپول، برسٹل اور شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بیلفاسٹ میں بدامنی کے بعد برطانیہ کے دیگر مقامات پر مزید سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے سربراہ نے کہا کہ بدھ کے روز افسران کی توجہ امیگریشن وکلاء اور خدمات کے تحفظ پر مرکوز تھی۔
برطانیہ میں حالیہ برسوں میں بدترین بدامنی
برطانیہ میں شمال مغربی انگلینڈ میں تین لڑکیوں کے قتل میں مبینہ ملوث مشتبہ شخص کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کے بعد گزشتہ ایک ہفتے کے دوران گزشتہ سالوں کی بدترین سماجی بدامنی دیکھی گئی۔
سوشل میڈیا صارفین نے اس مہلک حملے میں مشتبہ شخص کو تارکین وطن اور مسلمان بتایا تھا۔
اس کے بعد فسادیوں نے امیگریشن مخالف نعرے لگائے، مساجد پر حملہ کیا اور تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کو پناہ دینے کے لیے استعمال ہونے والے ہوٹلوں میں توڑ پھوڑ کی، جس سے مسلمان اور تارکین وطن کمیونٹی میں خوف پیدا ہو گیا۔
ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز، اے پی)