برقعہ تو رہا ایک طرف، جرمنی میں کبھی جینز پر بھی پابندی تھی
9 ستمبر 2016تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ کئی ادوار میں بعض ملبوسات پر پابندی عائد کی گئی اور ان میں سے چند تو ایسے ہیں، جن کے متعلق جان کر آپ کو حیرت ہو گی۔ مصنفہ اُلرش پلینسڈورف دینی رسوم کے تناظر میں اپنے ناول، ’دی نیو سفرنگز آف ینگ ڈبلیو‘ میں لکھتی ہیں،’’جینز محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا انداز ہے۔‘‘
پچاس کی دہائی کے اولین سالوں ہی سے نیلے رنگ کے موٹے سوتی کپڑے سے بنی پتلونیں آزادی، شفافیت اور بغاوت کی علامت بن گئی تھیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں بھی بہت سے نوجوانوں نے جینز کو بطور فیشن اپنایا تھا۔ وہاں البتہ حکومتی سطح پر امریکی جینز کو سرمایہ دارانہ شیطانی نظام کے آلے کے طور پر دیکھا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جینز صرف وہی افراد پہنتے ہوں گے، جو مجرمانہ اور آوارہ ذہنیت کے مالک ہوں گے۔ ستّر کے عشرے کے آغاز میں مشرقی جرمنی کے بعض اسکولوں میں جینز پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
یہاں تک کہ اسکول کے کچھ طالب علموں کو یہ پتلون پہن کر آنے کی پاداش میں اسکول سے خارج بھی کر دیا گیا۔ اور تو اور مشرقی جرمنی میں ڈانس ڈسکو کلبوں میں بھی جینز پر بین لگا دیا گیا تھا۔ تاہم جیسے جیسے حکومت جینز پر پابندی لگاتی گئی، ویسے ویسے یہ پہناوا مشرقی جرمنی میں مقبول ہوتا چلا گیا۔ آخر کار مشرقی جرمنی کی قیادت کو ہار مانتے ہوئے مغرب کے اس پہناوے کو برداشت کرنا پڑا۔ بالآخر سن انیس سو چوہتّر میں مشرقی جرمنی کی اپنی ٹیکسٹائل فیکٹریوں نے جینز کی پیداوار شروع کر دی۔ لیکن یہاں جینز کو ایک مختلف نام دیا گیا۔ مشرقی جرمنی میں انہیں ’نیٹن ہوزن ‘کہا جاتا تھا اور ان کی بناوٹ بھی اصل جینز سے قدرے مختلف تھی۔ تاہم سن انیس سو نواسی میں دیوار برلن گرنے کے بعد یہ تمام تحفظات پسِ پشت ڈال دیے گئے۔ سرحدیں کھلنے کے بعد مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی کی طرف جانے والےسینکڑوں افراد تصاویر میں جینز پہنے دکھائی دیے۔