برقعہ پر پابندی، فرانسیسی پارلیمان میں بحث
6 جولائی 2010اس مجوزہ قانون میں دیگر اقدامات کے علاوہ عوامی مقامات پر اپنا چہرہ مکمل طور پر ڈھانپنے والی مسلمان خواتین کے لئے 150 یورو جرمانے کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔ اس مجوزہ بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کئی قانونی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ ملکی قوانین کے خلاف ہے جبکہ ناقدین کے خیال میں ایسا کوئی بھی قانون مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کا باعث بنے گا۔
اس قانونی بل کو ایوان پارلیمان میں پیش کرنے والی خاتون وزیر انصاف Michele Alliot-Marie نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس پر اتفاق رائے ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا یہ مجوزہ قانون صرف مسلمان خواتین ہی کے لئے نہیں ہے۔ ’’یہ قانون برقعے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کوئی دانستہ طور پر اپنے چہرے کو کیوں چھپاتا ہے۔‘‘ فرانسیسی روزنامے ’لبریشن‘ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا: ’’یہ مذہب کا معاملہ نہیں ہے۔‘‘
کئی مہینوں کی شدید بحث کے بعد آخر کار منگل کی شام پارلیمان کے ایوان زیریں میں اس قانون پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس بل پر ووٹنگ 13 جولائی کو ہو گی۔ اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو پھر اس مجوزہ قانون کو ستمبر میں منظوری کے لئے ملکی سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔
قانونی ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ تمام عوامی مقامات پر برقعے کے استعمال پر پابندی ملکی آئینی عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی قوانین پر اسپین اور بیلجیم میں بھی بحث جاری ہے لیکن فرانس میں اس طرح کے قانون کی منظوری کافی متنازعہ بنی ہوئی ہے۔ فرانس میں رہنے والے مسلمانوں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد کے نتیجے میں وہاں آباد پانچ تا چھ ملین مسلمان شدید سماجی تناؤ کا شکار ہو جائیں گے۔
گزشتہ ہفتے ایک مسجد کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی وزیراعظم فرانسوآ فِیوں نے کہا تھا کہ نقاب یا برقعہ اسلام کی اصل تعلیمات کے منافی ہے جبکہ اس میں فرقہ واریت کی بو نمایاں ہے۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق فرانس میں کوئی دو ہزار سے بھی کم خواتین برقعہ پہنتی ہیں۔ اس مجوزہ قانون کے مطابق اگر کوئی مرد اپنی بیٹی، بیوی یا بہن کو زبردستی برقعہ پہننے پر مجبور کرے گا تو اسے 30 ہزار یورو تک جرمانہ یا ایک سال تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکے گی۔ تاہم اس قانون کے اطلاق کے بعد پہلے چھ ماہ کے دوران کسی بھی ملزم کو کوئی سزا نہیں سنائی جائے گی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک